لاہور (سلمان غنی) مسلح افواج کے سابق چیف ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ نے ملکی بقاء و سلامتی کو درپیش خطرات اور آزادی و خودمختاری کے آگے کھڑے سوالیہ نشان پر سیاستدانوں اور عوام کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وہ حساس معاملات حکمرانوں پر چھوڑنے کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے لیں اور مسائل کے سیاسی حل کیلئے آگے بڑھا جائے ورنہ ہم جتنی طاقت استعمال کرتے جائیں گے اندر سے ٹوٹتے جائیں گے۔ ممبئی واقعات پر اپنے اقرار جرم کے بعد کیا ہم امریکہ اور بھارت کے ان بڑے جرائم پر خاموشی سادھ لیں جو پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر اثر انداز ہونے لگے تھے۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ فوج کے حوالے سے بھی ناامیدی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ اس حکومت نے فوج کو مینڈیٹ دے کر جہاں حکومتی رٹ قائم کرنے بھیجا تھا پانچ ماہ بعد وہاں رٹ برقرار رہنے کی بجائے جہاں قائم تھی وہ بھی ختم ہو رہی ہے اب پارلیمنٹ سے رجوع کرنے اور بقاء و سلامتی اور آزادی و خودمختاری کیلئے لائحہ عمل کی تیاری کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ وہ گزشتہ روز نوائے وقت سے خصوصی بات چیت کر رہے تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے ڈرون حملوں کے حوالہ سے پاکستان کے اندر سے عمل کے امریکی انٹیلی جنس کے انکشاف کے حوالہ سے کہا کہ یہ کوئی انکشاف نہیں۔ بہ بات سب کو معلوم ہے کہ تربیلا کے قریب ایسا اڈا موجود تھا جو نروز سنٹر کے طور پر علاقہ میں آپریشن کرتا رہا۔ افغانستان‘ وزیرستان اور ٹرائبل ایریاز پر حملے یہاں سے ہوتے رہے یہ سب کچھ جنرل مشرف کے دور کا کیا دھرا ہے وقت آنے کے ساتھ پتہ چلے گا کہ اس شخص نے اپنے اقتدار کیلئے کیا کیا کچھ دائو پر نہیں لگایا۔ 2004ء تک ہمیں کوئی تکلیف نہیں تھی تو ایک بندوق لیکر بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔ لیکن جب جنرل مشرف پر حملہ ہوا تو جہاں اس جرم میں فوج کے کچھ لوگوں کو ملوث کیا گیا وہاں یہ کہہ کر اس کا ماسٹر مائنڈ وزیرستان میں ہے یہاں حملوں کا آغاز کیا گیا اور یہاں سات سو سے زائد بے گناہوں کو مار ڈالا گیا اس کے بعد یہ قبائلی جو ہماری سرحدوں کے محافظ ہماری بقاء و سلامتی کے ضامن تھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے ہماری فوج پر حملہ کیا فوج کو جانی نقصان پہنچایا۔ بعد ازاں جب مولوی نیک محمد کے ساتھ سمجھوتہ ہوا تو امریکہ نے شرانگیزی کیلئے مولوی نیک محمد کو مار دیا تاکہ یہ آپس میں جنگی کیفیت میں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ مسائل سے نمٹنے کیلئے طاقت کے استعمال نے ہماری قوت کو متاثر کیا ملک کے اندر انتشار پیدا کیا اور آج سوات کے اندر جنگی صورتحال کیوں ہے ان کا مطالبہ شریعت کے سوا کچھ نہیں۔ ان ریاستوں میں پہلے سے شریعت نافذ تھی وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے سسٹم میں عدل و انصاف نہیں۔ عدل و انصاف شریعت سے ہی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1994ء میں انہیں قاضی کورٹس کی اجازت دے دی اور وہاں امن قائم ہو گیا۔ جنرل اسلم بیگ نے کہا کہ اگر قوم کو جنرل مشرف کے جرائم کا ادراک ہو تو وہ اپنا سر پیٹ لے۔ اس نے قبائلی علاقوں‘ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں سی آئی اے کو کھلی چھٹی دی وہاں کے لوگ سر پیٹتے رہے کہ یہاں امریکن کھلے پھر رہے ہیں اور پھر اس نے بڑا ظلم وہاں پولیٹکل ایجنسی کے حکام پر اثرانداز ہو کر کیا گیا۔ خود آفتاب شیرپائو نے اقرار کیا کہ یہاں حملوں میں اڑھائی اڑھائی سو افراد مارے جاتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کو ٹارگٹ بنا کر اور پولیٹیکل ایجنسی سسٹم پر اثرانداز ہو کر ہم نے اپنے پائوں پر کلہاڑا مارا اور خود اپنے علاقوں میں ہم دربدر پھر رہے ہیں اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی ایک اڈے پر حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ایسے کئی اڈے خود پاکستان کے اندر پاکستان میں جنگی صورتحال پیدا کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں لیکن ہم سب کچھ دیوار پر لکھا دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر رہے ہیں یہ اڈے آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پاکستانیوں کو تہہ تیغ کرنے کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ انہوں نے ممبئی دھماکوں پر پاکستان کے اقرار جرم اور یہاں مقدمہ کے اندراج کو ایک نئی روایت قرار دیتے ہوئے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کا مشیر داخلہ اقرار جرم کرتے ہوئے ایسا طرزعمل اختیار کرتا ہے جیسے انہیں بہت بڑی کامیابی ملی ہے جیسے انہوں نے بہت بڑی سازش پکڑ لی ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ اقرار جرم دراصل ڈرا دھمکا کر کسی ڈکٹیشن کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقرار جرم کے بعد کیا پاکستان امریکہ اور بھارت کے ان جرائم پر پردہ ڈال دے جو ہمارے استحکام اور سلامتی کے خلاف وہ کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں قوم کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ آج پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کا جاسوسی نیٹ ورک قائم ہے جہاں سے پورے علاقہ خصوصاً افغانستان کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے علاقوں میں افغانستان کی جانب سے بھرپور مداخلت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ مجھے فوج کے حوالہ سے ناامیدی پیدا ہوئی ہے حکومت نے آرمی چیف کو بلا کر تمام اختیارات کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے بھیجا تھا مگر 5 ماہ بعد جن علاقوں میں رٹ رہ گئی تھی وہاں سے بھی ختم ہو چکی ہے یہ جنگ اب دیگر علاقوں میں بھی پہنچ رہی ہے اور اس جنگ کا محور وہ بیرونی مداخلت اور نیٹ ورک ہے جو پاکستان کے استحکام اور بقاء کے درپے ہے۔ امریکی ڈکٹیشن کے سامنے ہماری منتخب قیادت بھی ڈھیر ہو چکی ہے اور وہ اپنے حقیقی ایجنڈا سے ہٹ کر امریکی ایجنڈا کی تکمیل پر گامزن ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جن کے ذمہ داران کے چہرے کچھ اور کہتے ہیں اور ان کا وجود بھی عوام کے اندر تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ ان حکمرانوں سے توقعات قائم کرنے کی بجائے سیاستدانوں اور عوام کو چاہئے کہ ان ناکامیوں پر آنسو بہانے کی بجائے پارلیمنٹ سے رجوع کریں اور پانی بقاء و سلامتی اور آزادی و خودمختاری کی فکر کریں۔ سارے مسائل کا حل سیاسی عمل سے مشروط ہے اور سیاسی عمل سے ہٹ کر طاقت کا استعمال ان کے لئے اور مسائل کا باعث بنے گا۔