جو نہ جانے حق کی طاقت رب نہ دے اس کو ہمت

Feb 15, 2011

محمد ساجد خان
میری کئی دن سے بحث جاری ہے۔ محمد جنید کا مسلسل اصرار ہے کہ حق کا اصل فلسفہ طاقت ہے۔ ٹرانٹو کے اس سرد موسم میں پاکستان کے بارے میں تعلقِ خاطر موسم کی شدت پر حاوی ہو جاتا ہے۔ میرے پاکستان کے عوام حق کا پرچار تو بہت کرتے ہیں۔ مگر ان کو حق پر یقین نہیں۔ ہمارے میڈیا کو بھی حق کا دعوے تو ہے حق کے نام من پسند خیالات اور نظریہ اشتہار کیا جاتا ہے۔ کوئی حق کو تلاش نہیں کرتا۔ عوام تو کم از کم حق کیلئے داد کرتے یہ بدنصیبی کس کے کارن ہے بہت ہی مشکل سوال ہے۔ آجکل ہمارے ذہین اور فطین لوگ نئے انقلاب کی چاب سن رہے ہیں۔ تیونس اور مصر کے انقلاب پر تبصروں کے ساتھ ساتھ اپنے ہاں بھی اس کی دستک کی نوید دے رہے ہیں۔ میرے مطابق تیونس اور مصر میں کوئی بھی انقلاب نہیں آیا ہاں ایک شاٹ کٹ کے مطابق صرف انقلابی تبدیلی آئی ہے اور جو تبدیلی انقلاب کے بغیر ہو وہ جز وقتی ہوتی ہے ہمارے ہاں بھی ایسی تبدیلیاں زلزلے کے محفوظ جھٹکوں کی طرح اکثر آتی رہتی ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی ماضی کی ایک انقلاب پسند جماعت تھی اس نے انقلاب کا بیج تو ضرور بویا مگر پنیری نہ بن سکی ہمارے ہاں سب ہی پارٹیاں انقلابی، عوامی اور اسلامی ہیں مگر کسی جماعت میں بھی انقلاب، عوام اور اسلام کی روح نہیں ہے۔ قانون پر اعتبار نہیں۔ عدالت میں اختیار نہیں۔ منصف میں وجدان نہیں ایسے میں سب ہی اپنے آپ کو سچ کا پالن ہار کہتے ہیں۔ مگر مکر کرنے سے باز نہیں آتے۔ حق کے نام پر سچ کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ حق کیلئے سچ کا قتل کر دیتے ہیں پھر انقلاب کے نقیب بننے کے خواب دیکھتے ہیں مگر بند آنکھوں سے، ایسے میں عوام کی قسمت کیسے بدل سکتی ہے جن کے پاس حق کا نام ماپنے کیلئے وقت ہی وقت ہو۔ مگر حق کی لوری لے کر وہ خواب خرگوش میں مدہوش ہو کر اپنے آپ میں کھوئے رہتے ہیں۔
ہماری معیشت اور سیاست پر ایک دنیا پریشان ہے وہ ہمارے ہمدرد نہیں۔ بلکہ وہ ایک بڑی مارکیٹ کو ضائع ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ پھر وہ اس مارکیٹ میں پیسہ لگانے کو بھی تیار نہیں۔ قرض کے نام پر امداد ضرور دے دیتی ہے ہمارے ہاں کی بدانتظامی ہماری معیشت کی تباہی میں بڑی حصہ دار ہے۔ اس بدانتظامی پر کسی کو فکر نہیں۔ نوکر شاہی کا نظام بدلنے سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں اس کا حل صرف یہ نظر آتا ہے کہ نظام کے اندر قانون کے مطابق نوکر شاہی اپنا کردار اور اختیار استعمال کرے۔ ہر قسم کے معاملات کے طریقہ کار کا تعین ہو۔ پھر اعلیٰ انتظامیہ اپنے اعمال کیلئے جواب دہ ہو اور سب کچھ صاف اور شفاف ہو۔ وی آئی پی (ViP) کلچر کا مکمل خاتمہ ہو۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ایسی تبدیلی اوپر سے شروع ہو۔ اخراجات کی کمی کا سلسلہ ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر صاحبان اور وزیراعلیٰ حضرات سے شروع ہو اور باقاعدہ طریقہ کار سے اس کی نگرانی ہو پھر ہی یہ معمولی قربانی کوئی رنگ لا سکتی ہے۔ ایسے میں حق کیلئے ہاں کرنا بہت ہی آسان لگتا ہے۔ مگر تیاری کے بعد عمل کرنے کیلئے ہمت جواب دے دیتی ہے۔
ٹرانٹو کے اس سرد موسم میں پاکستان کے حالات پر سوچ دماغ کو سن اور دل کو بے کل کر دیتی ہے۔ محمد جنید جو پاکستان کے حالات سے بالکل مایوس نہیں ہے۔ وہ ایک عجیب بے کل سادھو مست مست نوجوان ہے وہ پاکستان کے مستقبل سے مطمئن ہے پھر وہ حالِ گم میں بھی نہیں ہے۔ وہ کسی بھی پاکستانی کی برائی نہیں کرتا۔ اس کا خیال ہے کہ وہ سب لوگ اپنے مطابق سب ٹھیک کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔ اس کا بنیادی نظریہ ’’حق کی طاقت‘‘ ہے اس کا مزید کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو حق کی طاقت کا اندازہ نہیں پہلے اندازہ کرنا ضروری ہے اگر آپ کو حق کی طاقت مل جائے تو پھر زندگی آسان ہو جائے گی اس کے بعد ہی آپ میں ہمت ہو گی جو آپ اور سب کی دنیا بدل سکے۔
پاکستان کی دنیا کب بدلے گی۔ جب ہم سب کو اپنی دنیا پر اعتبار اور اختیار ہوگا۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کسی آزاد جمہوری معاشرہ کے تصور سے ابھی خاصی دور ہیں۔ صرف مشرق بعید میں ملائشیا ایسا اسلامی ملک ہے جس کی معیشت کس قدرے قابل اعتبار اور وہ قابل قبول حد تک جمہوری اسلامی ریاست ہے مگر وہاں کے عوام بھی مسائل زدہ نظر آتے ہیں۔ دنیا میں ترقی اور عزت صرف حق کی طاقت کو مان کر حاصل کی جاسکتی ہے۔ امریکہ میں حق کی طاقت اب دم توڑتی نظر آرہی ہے اس وجہ سے ان کی معیشت شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ دنیا پر اس کا اعتبار ختم ہو رہا ہے اگر آپ کا حق دوسری کی آزادی محدود کر دے تو وہ حق نہیں۔ امریکہ کی جمہوریت سچ اور حق کی طاقت کی دشمن ہے ویسا ہی تصور ہمارے ہمسائے بھارت کا ہے اس کی ترقی بھی اس کو طاقت ور نہیں بنا سکی۔ اپنی آزادی کیلئے حق اور سچ اعتبار کرنا ضروری ہے پھر ہی رب ہمت دے گا اور ہم اپنی دنیا آج اور دوسروں کی دنیا کل بدل سکیں گے۔
مزیدخبریں