ڈاکٹر بیٹوں کے نام

دو تین روز پہلے جب میں سروسز ہسپتال کے باہر ٹھنڈی سڑک پر بھوک ہڑتالی ڈاکٹروں کے پاس بیٹھا تھا اور وہ مصر تھے کہ وہ کسی بھی شکل میں نہ کچھ کھائیں گے اور نہ کچھ پئیں گے۔ شفقت پدری سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ کمزوری اور نقاہٹ سے ان ڈاکٹرز کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ ان کی آواز لرز رہی تھی۔ جب فرط غم سے میری اپنی حالت غیر ہونے لگی تو میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ میرا اپنا بیٹا بھی ینگ ڈاکٹر ہے اور بیرون ملک ملازمت کر رہا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ میرے سامنے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اور بے بس باپ اس کی زندگی بچانے سے قاصر ہے۔ ہڑتالی ڈاکٹروں پر میری بات کا اثر ہو گیا اور انہوں نے لرزتی پلکوں سے ڈرپ لگوانے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ ان کے ساتھ ڈاکٹروں نے فوری طور پر انہیں ڈرپس لگا دیں اور یوں مجھے وقتی طور پر قدرے اطمینان ہو گیا۔ ڈرپس کے لگنے سے ان نوجوان مسیحاﺅں کی زندگی کو لاحق فوری خطرہ کسی حد تک ٹل گیا۔ جب میں نے دیکھا کہ بھوک ہڑتالی ڈاکٹروں نے میری بات کو پذیرائی بخشی ہے اور میرے پدرانہ جذبات کی قدر کی ہے تو پھر میں نے ینگ ڈاکٹرز کی قیادت سے ذرا کھل کر بات چیت کی اور انہیں عوامی احساسات سے آگاہ کیا۔ میں نے کہا کہ جس طرح آپ آئے روز ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور کام چھوڑ دیتے ہیں اس سے مریضوں کو بہت دقت ہوتی ہے۔ وہ بہت پریشان ہوتے ہیں میں نے یہ تاثر بھی ینگ ڈاکٹرز کی قیادت تک پہنچایا کہ لوگوں نے گوجرانوالہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں آپ کے ساتھیوں کی طرف سے ایم ایس کے ساتھ ہاتھا پائی کے واقعہ کو ایک قابل افسوس بلکہ قابل مذمت واقعہ گردانتے ہیں اب جبکہ سروس سٹرکچر والا آپ کا مطالبہ پورا ہو گیا تو احتجاج کیسا۔ اسی طرح بیرونی مہمانوں کی موجودگی میں تیز رفتار بس سروس کے افتتاح کے موقع پر آپ کے احتجاجی پروگرام کو بھی لوگوں نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ۔ ینگ ڈاکٹرز نے میری تنقید کو نہایت اطمینان سے سنا اور پھر ایک ایک تکاثر کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا احتجاج ہمیشہ انتہائی پرامن رکھا اور شدید تناﺅ کے عالم میں بھی کبھی کام بند نہیں کیا۔ موجودہ احتجاج کو دسواں دن ہو گیا ہے اس دوران سوائے صرف دس فروری کو پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہم نے دو تین گھنٹوں کےلئے ایمرجنسی بند کی تھی ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا اور آج ایمرجنسی آﺅٹ ڈور اور ان ڈور ہر شعبہ پوری مستعدی سے کام کر رہا ہے اور ینگ ڈاکٹرز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں گوجرانوالہ والا واقعہ ویسے پیش نہیں آیا جیسے اسے میڈیا پر دکھایا گیا۔ ہم اس واقعے کی جوڈیشنل انکوائری کا مطالبہ کر چکے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ جہاں تک سروس سٹرکچر کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہم پنجاب حکومت کے شکر گزار ہیں مگر گزشتہ اڑھائی ماہ سے بیوروکریسی معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتی ہماری گزارش ہے کہ اس معاہدے کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ جعلی دواﺅں کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ جعلی اور غیر معیاری ادویات جان لیو ثابت ہوتی ہے ہسپتالوں کے لئے ان دواﺅں کی خریداری فی الفور بند کی جائے نیز لوگوں کو حکومت پنجاب یہ تاثر نہ دے کہ یہاں مکمل طور پر مفت علاج کیا جاتا ہے کیونکہ جب مطلوبہ دوا نہیں ملتی اور مریض کے لواحقین سے کہا جاتا ہے کہ وہ باہر سے دوا خرید کر لائیں تو وہ ہمارے ساتھ دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ ہمارا ایک اور مطالبہ یہ ہے کہ وی آئی پی کلچر ختم کیا جائے اور امیر و غریب تمام مریضوں کو یکساں علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دس فروری کو ہمارا مطالبہ صرف میاں شہباز شریف سے ملاقات کا تھا مگر پولیس نے ہم پر وحشیانہ تشدد کیا۔ ڈاکٹروں سے بات چیت کر کے اور دوسرے ذرائع سے معلومات یکجا کر کے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بیوروکریسی کے بعض عناصر ڈاکٹروں کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں اپنے بچے نہیں اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں وہ خادم اعلیٰ کو درست معلومات فراہم نہیں کرتے۔ وہ اوپر جا کر یہ رپورٹ دیتے ہیں کہ آپ بے فکر رہیں کہ یہ چند سر پھرے ڈاکٹروں کی کارستانی ہے دو چار دنوں میں ان کا دماغ سیدھا ہو جائے گا جبکہ پنجاب کے تقریباً 30 ہزار ینگ ڈاکٹرز میں سے 25 ہزار ڈاکٹر اس ایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر ہماری نوجوان نسل کا وہ طبقہ ہیں جو ”پڑھاکو“ کہلاتے ہیں۔ وہ رات دن پڑھائی کرتے ہیں وہ تفریحی مقامات سے دور رہتے ہیں۔ وہ مچلتی آرزوﺅں کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے اور دس دس گھنٹے روزانہ انتہائی محنت اور شفقت سے وارڈوں میں کام کرتے ہیں۔ میو ہسپتال میں روزانہ اڑھائی ہزار کے قریب مریض صرف ایمرجنسی وارڈ میں آتے ہیں اس طرح تقریباً ماہانہ 55 ہزار مریض توایمرجنسی کے بنتے ہیں۔ آﺅٹ ڈور کے مریض اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں پچاس پچپن ہزار مریض وہاں کے کسی بڑے سے بڑے ہسپتال کی ایمرجنسی میں سالانہ بھی نہیں آتے۔ امریکہ یورپ میں ایمرجنسی میں سینئر ڈاکٹر کام کرتے ہیں جبکہ یہاں رات دن ایمرجنسی میں ینگ ڈاکٹرز ہی کامیابی کے ساتھ مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے سینئر ڈاکٹروں کا انتہائی عزت و احترام کرنے والے محنتی ینگ ڈاکٹرز کبھی کبھی جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی جب حق تلفی ہوتی ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ ان سے کم قابلیت اور صلاحیت والی بیوروکریسی عیش و عشرت کی زندگی گزارتی ہے اور انہیں ان کا کم از کم حق بھی نہیں ملتا تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ غیر روایتی انداز حکمرانی بلکہ عوامی خدمت پر یقین کامل رکھنے والے خادم اعلیٰ کے جو جگہ جگہ نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کے درمیان لیپ ٹاپ بانٹتے ہیں وہ ینگ ڈاکٹرز کے معاملے کو بیوروکریسی پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو سڑکوں پر بھوک ہڑتال کرنا گورنر ہاﺅس اور وزیراعلیٰ کے دفتر کے باہر دھرنا دینا پنجاب کے لئے نیک نامی کا نہیں بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ گزشتہ سات آٹھ روز سے بھوک ہڑتالی ڈاکٹرز نے کچھ نہیں کھایا۔ سینئر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ خدانخواستہ کوئی ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھ گیا تو جہاں والدین کے لئے ناقابل برداشت صدمہ ہو گا وہاں خادم اعلیٰ کے لئے بھی دلی افسوس کا باعث ہو گا اور پنجاب حکومت کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہو گا اور ملک گیر احتجاج کا باعث ہو جائے گا۔ ایک استاد، کالم نگار اور ایک ڈاکٹر کا باپ ہونے کی حیثیت سے میں اس معاملے کی نزاکت کو بڑی شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔ میاں شہباز شریف بھوک ہڑتالی ڈاکٹروں کو اس نظر سے دیکھیں جس نظر سے وہ حمزہ شہباز شریف کو دیکھتے ہیں اور میاں نواز شریف سڑکوں پر مجبوراً احتجاج کرتی ہوئی لیڈی ڈاکٹروں کو اس نظر سے دیکھیں جس نظر سے وہ اپنی بیٹی مریم نواز کو دیکھتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کر لیں گے اور بیوروکریسی کو درمیان سے نکال کر ینگ ڈاکٹرز کے دو چار نمائندوں کو بلا کر بزرگانہ شفقت سے بات کریں گے تو معاملہ فوراً حل ہو جائے گا۔ میرا ذاتی تجربہ تو یہی ہے کہ ینگ ڈاکٹر شفقت پدری کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اس موقعے پر مسلم لیگ (ن) کے سافٹ سپوکن رہنما پرویز رشید اور آﺅٹ سپوکن قائد خواجہ سعد رفیق کہاں گئے دونوں حضرات بڑا مثبت مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن