سفر آغاز ہوتا ہے

پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید ترین اور عظیم ترین منصوبے، میٹروبس سروس کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی تکمیل کے بہت سے مراحل باقی ہیں۔ اس منصوبے کی وجہ سے پورا لاہور ادھڑا پڑا ہے اور زندہ دلان لاہور ٹریفک کے گھمبیر مسائل سے دوچار ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے یعنی میگا پراجیکٹ کی تعمیر اور تکمیل ”خالہ جی کا گھر نہیں“۔ جب کوئی شخص اپنے گھر کی توسیع و مرمت کا کام اپنی فیملی کے ساتھ کرواتا ہے تو انہیں تکمیل تک بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کام مکمل ہو جانے کے بعد وہ تکلیف اور زحمت آدمی بھول بھی جاتا ہے ۔ اسی طرح اس طرح کے پراجیکٹ میں بھی دشواریاں اور مشکلات فطری عمل ہے۔ سیاسی مخالفین کی تنقید اس لئے درخوراعتنا نہیں ہوتی کہ سیاست میں یہ سب چلتا ہے۔ لیکن عوام الناس اس منصوبے سے خوش ہیں اور میاں شہباز شریف کو دعائیں دے رہے ہیں جنہوں نے صوبے کا بجٹ، صوبے کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا ہے اور شہباز شریف کا خرچ کیا ہوا پیسہ نظر آتا ہے۔
ہمارے ایک دوست میاں شہباز شریف کی انگلی کو ”جادو کی چھڑی“ کہتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ شہباز شریف نے ایک ناممکن منصوبے کو ممکن کر دکھایا ہے۔ شہباز شریف واقعی طلسماتی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں اسے عملی جامہ پہنانا بھی جانتے ہیں۔ حد یہ کہ اپنے خواب کو تعبیر اور حقیقت میں ڈھال کر ”سالڈ فارم“ میں لے بھی آتے ہیں۔ پی پی پی کے پانچ سالہ دور حکومت پر جب توجہ کرتے ہیں تو ملکی تعمیر و ترقی یا عوامی فلاح و بہبود کا کوئی چھوٹا سا منصوبہ بھی نظر نہیں آتا۔ صدر زرداری ”بے نظیر انکم سپورٹ“ منصوبے کا بڑا چرچا کرتے ہیں۔ لیکن اس منصوبے پر بھی کرپشن اور اقربا پروری کی دھول پڑی ہوئی ہے ۔
جہاں تک میٹرو بس سے ”طبقاتی تقسیم کے ختم ہونے“ کی بات ہے تو معذرت کے ساتھ طبقاتی تقسیم اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان کو جاگیر داری نظام کے عفریت کے سے نجات نہیں دلائی جاتی اور شرح خواندگی سو فیصد نہیں ہو جاتی۔ اگر مسلم لیگ (ن) اپنے آئندہ پانچ سالہ دور حکومت میں جاگیرداری نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ میاں برادران کا پاکستانی عوام پر بہت بڑا احسان ہو گا۔طبقاتی نظام کو ختم کرنے کا تہیہ اگر میاں شہباز شریف کر لیں تو اللہ ان کی ضرور مدد کرے گا۔
میٹرو بس سروس ابھی مفت چل رہی ہے، شاید اسی لئے لوگوں کا ہجوم بہت زیادہ اور بے قابو ہے جس کے باعث بسوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے لئے حکومت پنجاب کو ٹکٹ کا وہی سسٹم رائج کرنا پڑے گا جو بنکوں اور ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ مسافر مشین سے اپنا نمبر لے کر قطار میں کھڑے ہو جائیں اور کنڈکٹر جتنے آدمیوں کی آواز لگائے یعنی، چار، چھ یا دس.... تو پہلے دس آدمی بس میں سوار ہو جائیں باقی دوسری بس کا انتظار کریں۔ اس سے عوام میں ڈسپلن بھی پیدا ہو گا اور قوت برداشت میں بھی اضافہ ہو گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان بسوں کو خصوصی طور پر اوورلوڈنگ سے بچایا جائے، کیونکہ انہوں نے اوورہیڈ برج میں بھی سفرکرنا ہے اوورلوڈنگ کی صورت میں کوئی حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ جو سکیورٹی گارڈ میٹرو بس کے راستے میں تعینات کئے گئے ہیں انہیں ہر سٹاپ پر نظم و ضبط برقرار رکھنے کا اختیار بھی دیا جائے تاکہ بات دھینگا مشتی، ہلڑ بازی اور ہاتھا پائی تک نہ پہنچ سکے۔
اب میاں شہباز شریف کو مال روڈ پر بھی توجہ دینا چاہئے جہاں چوبیس گھنٹے ٹریفک بلاک رہنے لگی ہے۔ مال روڈ پر اگر کیبل کار چلانے کا منصوبہ (جو غالباً انہوں نے پچھلے دور میں سوچا تھا) تیار کیا جائے تو وہ بھی ناممکن نہیں۔ اگر انڈر گراﺅنڈ ریل چلا دیں تو کیا ہی بات ہے۔ ....
بات سے بات کی طرح جمشید
کوئی صورت نکل ہی سکتی ہے

ای پیپر دی نیشن