جمعة المبارک ‘ 4 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 15 فروری2013 ئ

دوجہ میں افغان طالبان کا فضل الرحمان کو ضامن ماننے سے انکار۔ مولانا فضل الرحمان پر تو انکے والد محترم کو بھی اعتماد نہیں تھا طالبان کیسے ضامن تسلیم کرلیں۔با اعتماد اور منجھے ہوئے صحافی نے ایک واقعہ بتایا کہ مفتی محمود مولینا عبدالستار نیازی دونوں ایک کمرے میں بیٹھے سیاسی گفتگو کررہے تھے کہ اچانک فضل الرحمان وہاں پر آگئے تب ان کا بچپن تھا انکے آتے ہی مفتی محمود صاحب نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر نیازی صاحب کو گفتگو روکنے کا اشارہ کیا بعد میں استفسار پر مفتی صاحب نے بتایا کہ سی آئی ڈی والوں نے فضل الرحمن کو میرا مخبر رکھا ہے لہٰذا اس کے سامنے ایسی ویسی بات مت کرنا۔ جو اپنے والوں کی مخبری سے باز نہیں آئے تھے وہ طالبان کے رازوں سے بھی پردہ اٹھاسکتے ہیں۔اسی بنا پر متعدد رابطوں کے باوجود طالبان نے چونے کی طرح جواب دیا۔اسی بنا پر کہاجاتا ہے....ساری عمر چلا کیاں وچ گزریتقویٰ رکھیا ہیریاں پھیریاں تےبھلا ملدی کویں مراد سرورامب لگے نئیں کدے وی بیریاں تےدراصل مولانا ہمیشہ وہاں گرتے ہیں جہاں کوئی بڑا فائدہ انہیں نظر آئے۔چھوٹی موٹی چیزوں پر گر کر وہ اپنی توہین کرانا پسند بھی نہیں کرتے۔ ویسے بھی مولانا دو کشتیوں پر سوار ہیں بیک وقت وہ اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور حزب اختلاف کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں اسی لئے تو طالبان بھی اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔٭....٭....٭....٭دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئیتو فیض ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی حسین حقانی کے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان پر تنقید۔ حقانی ایک تیر سے دو شکار کرنے کے عادی ہیں۔اگرچہ انہوں نے فیض احمد فیض کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعر کہا لیکن پھر بھی وطن پر تبرا کرنے سے باز نہیں آئے ۔ایک دفعہ وعدہ کرکے ایسے بھاگے کہ اب واپسی کا راستہ ہی بھول گئے ہیں۔عدالت نے انہیں مکمل صفائی پیش کرنیکی اجازت دی لیکن وہ اس سمت آئے ہی نہیں ہم تو اب بھی انہیں یہی کہتے ہیں....یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتےہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتےپیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوازبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے آپ پاکستان تشریف لائیں قانون کی بلبلوں کے سامنے پیش ہوں اور حالِ دل کہہ ڈالیں دیار غیر میں غیر محرموں کے سامنے اپنے دکھ ” پھولنے “ کا کیا فائدہ۔ریلیف یا چھٹکارا تو ماں جائے سے ہی ملے گا، زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرسکتے ہیں۔موجِ صبا کی طرح ہنس مکھ چہرے کیساتھ آکر لگ جائیں ۔بیڑا پار ہوجائیگا۔٭....٭....٭....٭ سلمان سرور بٹ مستعفی،میانداد ایم ڈی پاکستان سپر لیگ مقرر۔ میاں داد تو پہلے ہی پی سی بی کے ڈائریکٹر ہیں اب ڈبل ڈبل عہدے کندھوں پر اٹھا لیے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ اپنی موت آپ مررہی ہے۔ہارون لورگاٹ نے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پاکستان پر بند کیے پھر اس پاکستان کرکٹ دشمن کے ہاتھ سپر لیگ کی کمان دیدی ۔ ایک چلا ہوا کارتوس کرکٹ کو کیسے بحال کریگا۔ ہارون لورگاٹ لاکھوں روپے تنخواہ بٹورکرکہتے ہیں سپر لیگ ابھی نہیں ہوسکتی شاید سلمان سرور بٹ نے اسی بنا پر سپر لیگ کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا نے میں ہی عافیت سمجھی ہو۔میانداد اب کیا گُل کھلائیں گے شائقین کرکٹ کو ئی نیا چاند چڑھنے کی امید اتار دیں۔ہمارے کرکٹ گراﺅنڈوں میں پہلے ہی اُلو بول رہے ہیں۔پریوں کے جھرمٹ کی امید مت رکھیں، پاکستان کرکٹ بورڈ ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کو ہی راضی کرلیتا۔کالی آندھی جب چھائے گی تو نحوست کے بادل خود بخود بھاگ جائیں گے۔چیئر مین پی سی بی پہلے گراﺅنڈز کی رونقیں بحال کرسکے نہیں لیکن لاڑکانہ جا کر نئے سٹیڈیم بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے ،انسان کی نیت اگر اچھی ہوتو پہاڑ بھی موم بن جاتے ہیں۔ڈاکٹر محمد علی مرحوم نے ایک دفعہ تو کراچی میں کرکٹ کا ڈنکا بجا کر سب کو حیران کردیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی ورنہ بندہ بڑے کام کا تھا۔٭....٭....٭....٭ویلینٹائن ڈے میں لوگوں نے خوب محبتیں بانٹیںاس مرتبہ ہمارے ہاں پہلے جیسا جوش و خروش نظر نہیں آیا بلکہ اکثر مقامات پر سناٹا ہی چھایا رہا۔ پھول ہاتھوں میں تھام کر چوکوں‘ چوراہوں پر بیوپیاری کھڑے رہے لیکن اس مرتبہ تو دیوانے رقص کیلئے گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ مذہبی حلقوں نے 14 فروری کی تاریخ پر اپنی مہر لگانے کیلئے اسے یوم حیاءکے طور پر منانے کا اعلان کیا۔اب ہمارے ہاں لوگ اس سے باخبر ہو چکے ہیں۔ جو لوگ وعدہ کرکے توڑ دیں‘ پھول لیکر بھی انکار کر دیں‘ انہیں پھول دینے کا کیا فائدہ۔ ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جو وعدے کرکے توڑ دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں‘ وعدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے۔ نوجوان نسل سے ایک ہی گزارش ہے کہ محبت ضرور بانٹیں لیکن وہاں جہاں آپکو یقین ہو کہ اس کا بھرم رکھ لیا جائیگا۔ جہاں ٹوٹنے کا خدشہ ہو وہاں دل مت دیں۔ بہرحال ہیں تو انسان ہی‘ ہوتا تو ویسے ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا تھا....”ہم کو ان سے وفا کی ہے امیدجو نہیں جانتے وفا کیا ہے“

ای پیپر دی نیشن