ہم حال مست عوام ہیں
بدحال صبح و شام ہیں
دوچار ہیں فاقوں سے ہم
صنعت کے پہیے جام ہیں
تفتیش ہے بس نام کی
نعشوں کی ہے بے حرمتی
کرتے ہیں قتل عمد پھر
کہتے ہیں اس کو خودکشی
یہ قتل ہے انصاف کا
کوئی چارہ گر فارغ نہیں
قاتل جو ان کی صف میں ہے
کہتے ہیں یہ بالغ نہیں
اپنی ہے جو اشرافیہ
اس کا اٹل ہے فیصلہ
یہ لوٹ کر اس ملک کا
بدلے گی اب جغرافیہ
یہ دن بدلنے کے نہیں
بادل برسنے کے نہیں
کہتے ہیں خون انصاف کا
ظالم یہ ٹلنے کے نہیں
یہ شب سیاہ برسوں کی ہے
کب جانے اس کی پو پھُٹے
رب سے دعا ہے ظفر کی
ہم بے کسوں کی جان چھٹے
احوالِ وطن .... ( ظفر اقبال سندھو، گجرات)
Feb 15, 2013