جب وکی لیکس کے ذریعے امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیاں اور ان کے لکھے ہوئے مراسلے جولیان اسانج نے طشت ازبام کرنے شروع کئے تو ان مراسلوں میں سے ایک مراسلے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان میں اس وقت کی خاتون امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن سے ایک ملاقات میں خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر انہیں پاکستان کا وزیراعظم بنادیا جائے تو وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکات اور مفاہمت کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وکی لیکس کے ذریعے جو سفارتی مراسلہ سامنے آیا تھا اس میں امریکی سفیر کا مولانا کے بارے میں یہ تبصرہ بھی شامل تھا کہ مولانا مولوی کم اور سیاستدان زیادہ ہیں۔وہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کراسکتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کے سیاسی مخالفین اور نقاد بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ان کے نقاد کہتے ہیں کہ مولانا موقع پرست ہیں۔صدر زرداری کی حکومت کا حصہ بننے اور انہیں سپورٹ کرنے پر مذہبی حلقوں نے مولانا کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا۔متحدہ مجلس عمل میں ان کے پرانے اتحادی پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل ہونے پر ہمیشہ ان کے لتے لیتے رہے۔مولانا نے مناسب موقع پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی اور حکومت مخالف کیمپ میں چلے گئے۔وہ پی پی پی کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن وہ سیاسی مخالفت میں انتہا تک جانے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔
مولانا ایک سے زیادہ مرتبہ طالبان اور حکومت میں ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں لیکن انہیں یہ کردار نہیں دیا گیا۔ کچھ عرصہ تو وہ طالبان کے غیض وغصب کا شکار ہے ۔ نوشہرہ کے قریب ایک جلسہ میں ایک خودکش حملہ میں اس کی جان لینے کی کوشش کی گئی جس کے بعد وہ کچھ عرصہ تک محتاط رہے۔ اب وہ دوحہ میں طالبان سے بات چیت کے لیے گئے ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق دوحہ میں طالبان نے ان سے مذاکرات سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ آپ کے پاس مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی وہ طالبان کو گارنٹی دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ لیکن مولانا کے قریبی ذرائع ان رپورٹوں کی تردید کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ مولانا کے ساتھ قطر میں طالبان نے ابتدائی بات چیت کی ہے جس میں ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا مذاکرات کے لیے ان کے پاس اختیار ہے اور کیا وہ طالبان کی شرائط منوالیں گے ؟ مولانا کوئی طفل مکتب نہیں وہ بغیر کسی طرف کی یقین دہانی کے بغیر اس حساس معاملے میں ہاتھ ڈالنے والے نہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق طالبان کے جن نمائندوں نے مولانا سے ابتدائی مکالمہ کیا ہے اس میں انہوں نے مولانا کو شرائط دی ہیں جن میں ایک شرط تو گوانتاناموبے میں قید بعض راہنماو¿ں کی رہائی کی شامل ہے ۔ ایک اور شرط یہ بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اس صورت میں ہوسکتے ہیں جب امریکہ افغانستان سے فوج مکمل نکالے۔ اگر اس کی فوج افغانستان میں رہی تو مذاکرات نہیں ہوسکیں گے
یوں بھی امریکہ انتظامیہ ”زیرو آپشن“ پر بھی غور کررہی ہے یعنی افغانستان سے امریکی فوج کو مکمل طورپر نکال لیا جائے اور سیکیورٹی کی تمام ذمہ داریاں افغان سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دی جائیں۔ مولانا کے قریبی ذرائع کے مطابق طالبان کے نمائندوں نے یہ شرط رکھی ہے کہ امریکہ افغانستان میں سارا سازوسامان چھوڑ کر جائے۔ ان ذرائع کے مطابق ایک شرط یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مذاکرات کا عمل گزشتہ مارچ میں ہونے والے مذاکرات سے ازسرنو شروع کیا جائے۔ گزشتہ مارچ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن اس دوران افغان امن جرگہ کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد یہ رابطے اور مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔
مولانا کو اگر یہ شرائط دی گئی ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ یہ شرائط حکومت یا پھر حکومت کے ذریعے امریکہ اور افغان حکومت تک پہنچائیں گے۔ مولانا کے قریبی ذرائع یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ دوحہ جانا اور وہاں طالبان سے مذاکرات کرنا مولانا کا اپنا INITIATIVE ہے۔ انہیں کسی کی اشیرباد حاصل نہیں۔ مولانا دوحہ سے ابوظہبی چلے گئے ہیں۔ وہ ایک دو روز میں واپس آ جائیں گے اور دوحہ میں قیام اور طالبان لیڈروں سے بات چیت شیئر کریں گے۔ ان دنوں امریکہ اور نیٹو طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں پہلے کے مقابلے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ انہیں نظر آ رہا ہے کہ طالبان کو افغان مسئلہ کے حل سے باہر رکھ کر وہاں امن اور استحکام کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان میں امریکی سفیر نے انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیزمیں تقریر کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ 1989ءوالی غلطی نہیں دہرائے گا۔ وہ افغانستان کو اس طرح چھوڑکر نہیں جائے گا۔ جس طرح اس نے سوویت یونین کی فوجوں کے انخلاءکے بعد افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ امریکہ افغانستان کا ایک سیاسی حل تلاش کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اس سلسلے میں وہ پاکستان کے کردار پر زور دے رہا ہے۔ مولانا کی پیش رفت کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔