قادر مطلق کی صناعی اور کاریگری کا انمول شاہکار تخلیق کائنات ہے جسکی کی بنیاد پر سائنس وجود میں آئی۔ رب جلیل کی تخلیقی مہارت کی معراج یہ ہے کہ سورج، چانداور ستارے آنکھ جھپکنے کی دیر برابر بھی اپنی مقررہ چالوں میں فرق نہیں ڈال سکتے کیونکہ ایسا ہوجانے سے قیامت برپا ہو جائے۔ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے سورج، چاند اور ستارے اپنی اپنی متعین راہوں پر محو گردش ہیں۔
خالق کائنات نے وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ پر قران حکیم کا پہلا لفظ اقراء نازل فرمایا جسکے لفظی معنی ہیں پڑھ جبکہ بنیادی علوم کی روشنی میں کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے راز و رموز کو جاننا ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان رازو رموز کو سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے بغیرجاننا ممکن بھی ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ آج دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا پر حاکمیت اس قوم کی رہی جو تمام علوم میں عالم فاضل رہی۔ میرا رب رب العالمین ہے صرف رب المسلمین نہیں۔ جس قوم نے اقراء کے فلسفے پر عمل کیا حکمرانی انکا مقدر بنی۔ جب تک مسلمان قوم عالم فاضل رہی حکمرانی انکے حصے میں آئی۔ آج دنیا میں کئی مسلم ممالک پر انکی اپنی حکمرانی نہیں ہے کسی اور کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ذلت و خواری اور کیا ہو سکتی ہے ؟
حضور اکرم ﷺ نے جہاد کیلئے اسلحہ اور سواری میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔ تلوار کی دھار کو سائنٹیفک بنیادوں پر تیار کروا کر کفار کے اسلحہ پر برتری حاصل کر لی۔ اسی طرح سواری کے معاملے پر سواروں کو حکم دیا کہ گھوڑوں کو اتنا دوڑائیں کہ ہلکان ہو جائیں۔ کھرلیوں میں خوراک لگا دی گئی ۔ جو گھوڑے خوراک کی طرف چلے گئے انہیں علیحدہ کر دیا گیا اور جو سواروں کے ساتھ کھڑے رہے انہیں علیحدہ کر لیا گیا۔آئندہ نسل ان گھوڑوں سے لی گئی جو سواروں کے ساتھ کھڑے رہے۔ مجاہدین اسلام کو مستقبل کیلئے ایک سبق ملا کہ آنیوالے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلحہ اور سواری کی تیاری میں دشمن پر ہمیشہ بر تری حاصل کرتے رہو۔
حدیث مبارکہ ہے کہ قسطنطنیہ جسے آج استنبول کہا جاتا ہے کو فتح کرنے والے مجاہدین کو حضور اکرم ؐ نے پیشن گوئی کی کہ وہ جنتی ہونگے۔ یہ پہلی جنگ تھی جس میں بحری بیڑے اور گولہ پھینکنے والی منجیک نے استعمال ہونا تھا۔ اس پیشن گوئی سے نشاندہی یہ ہوئی کہ مستقبل میں اسلام کی فتح مندی کیلئے جدید اسلحہ اور سواری تیار کرنے والے مجاہدین اسلام بھی جنتی ہونگے۔
جب مسلمان مجاہدین نے یورپ پر قدم رکھا تو وہ ہر شعبہ حیات میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہو ا تھا۔ جب تک مجاہدین اسلام عالم فاضل رہے حکمرانی انکا مقدر رہی جونہی علم سے ناطہ توڑا سات سو سال سے بھی زائد سپین پر حکمرانی کرنے والی قوم کو عبرتناک ذلت و خواری سے سپین سے نکال دیا گیا۔ہندوستان پر سات سو سال سے زائد حکمرانی کرنے والے مسلمان حکمرانوں نے سینکڑوں میل پر پھیلے ہوئے ساحل سمندر کی حفاظت کیلئے ایک بھی بحری جہاز نہ بنایا۔ اس کوتاہی کو بھانپتے ہوئے انگریزوں نے ہندوستان کے ساحل سمندر پر بحری قوت سے حملہ کرنا شروع کیا اور پورے ہندوستان پر 90 سال حکمرانی کر گئے۔ دو عالمی جنگوں میں اگر انہیں نہ الجھایا جاتا تو شاید اب تک انکی حکمرانی قائم ہوتی۔تین براعظموں پر حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ صرف ایک متعصبانہ نعرہ کی نذر ہو گئی’’عرب عربوں کا خلافت اہل سادات کی‘‘۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی۔ کمزور ترین عرب ریاستوں کے قیام نے اسرائیلی ریاست کے قیام کو ممکن بنا دیا۔ بالآخر اسرائیلی ریاست قائم ہو گئی۔ آج تک فسلطینی در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ عربوں کی تمام ریاستیں ملکر بھی اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ پہلے انگریز سرزمین عرب کے وسائل استعمال کرتا رہا اور آج امریکہ ۔المیہ یہ ہے کہ آج تک خلافت قائم نہ ہو سکی۔کتنی افسوس ناک بات ہے کہ شانوں والے پیغمبر حضرت محمدؐ کی امُت ماضی کی سازشوں سے کوئی سبق حاصل نہ کر سکی۔ آج بھی مذہبی ، علاقائی اور لسانی تعصبات میں گھر کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ پاکستان ان سازشوں کا شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ واضح فرمان ربی تو یہ ہے کہ جو مسلم امہ میں تفرقہ ڈالے گا وہ مسلم امہ میں سے نہیں ہے۔
جب سے دین اور دنیا کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ہے شکست ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ آج دینی مدارس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بالکل نہیں ہے اور دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی وہ تعلیمی معیار نہیں ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہے جبکہ ان تعلیمی اداروں میں دینی تعلیمات سرے سے غائب ہیں۔رب کائنات کا مخلوق کے ساتھ تکرار ہے کہ تم میری کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ جب قرانی تعلیمات کو سائنٹیفک اصولوں سے سمجھنے کی صلاحیت ہی حاصل نہیں ہو گی تو رب کائنات کی فیاضیوں اور کرم نوازیوں کا صحیح اعتراف کیسے ہو گا؟
یہ واقعات اسلئے لکھے ہیں کہ ان سے سبق حاصل کر سکیں۔ ایک وقت تھا جب اسلام تاجروں کا مذہب کہلایا آج تمام اسلامی ممالک صارف معاشرے میں بدل چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے چالیس فیصد وسائل مسلمان ممالک کے پاس ہیں اگر مسلم امہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کم از کم مسلم امہ کے وسائل کی تجارت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی رہے گی۔
مڈل سے لیکر انٹر میڈیٹ تک ٹیکنکل تعلیم لازمی قرار دی جائے تاکہ کوئی بھی طالب علم فنی تعلیم سے محروم نہ ہو۔ اسی طرح مدارس میں بھی بارہ سال کی تعلیم میں چھ سال فنی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ اگر مسلم امہ نے ٹیکنیشنز پیدا کر لیے تو مصنوعات بننی شروع ہو جائینگی۔مسلم امہ اپنے وسائل خود استعمال کرنے لگے گی۔انٹر میڈیٹ کے بعد ان میں سے ڈاکٹرز، انجینئرز ، سائنسدان اور دوسرے شعبوں کے ماہرین یقینا پیدا ہونگے۔ جو مسلم امہ کو غلامی سے نجات دلوائینگے۔ مسلم امہ کو معیاری تعلیم کی طرف آنا ہوگا۔ آج ایک غریب مزدور اور کسان کا بچہ پڑھ تو لیتا ہے ۔ نہ وہ مزدور اور کسان رہتا ہے اور نہ اسے آسانی سے ملازمت ملتی ہے۔ فنی تعلیم کے بغیر تعلیم یافتہ نوجوان معاشرے پر بوجھ بن رہے ہیں۔ جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج دشمن ہمارے گھروں تک ٹیکنالوجی کے ذریعے پہنچ چکا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مطلوبہ شخص کس جگہ موجود ہے وہ ڈرون حملوں سے اس پر کامیاب حملے کر رہا ہے۔ جب تک مسلم امہ فنی و سائنسی علوم میں برتری حاصل نہیں کر لیتی تب تک یہود و ہنود اور نصارٰی جیسے خوفناک دشمنوں سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں ہو گا ۔ یہ تو سچ ہے کہ ہر مسلمان کیلئے جہاد فرض ہے ۔ جہاد کیلئے دشمن کے مقابلے میں بہتر اسلحہ اور سواری تیار کرنا بھی فرض ہے۔دین کی امامت کرنیوالے کیا بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے جدید اسلحہ اور سواری کی تیاری میں مسلم امہ کی کیا مدد کی ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ جہاد کیلئے دشمن کے مقابلے میں جدید ترین اسلحہ اور سواری بنانا سب پر فرض ہے۔ دینی اور فنی تعلیم دونوں کو ایک ساتھ حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔اسلام میں ایک معصوم انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔آج خودکش حملوں ،بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ سے کتنے مسلمان بچے ، بوڑھے ، عورتیں اور نوجوان شہید کیے جا رہے ہیںاور وہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں ؟