”مجھے میرا لاہور واپس لوٹا دو“

لاہور سے وابستہ میری نسل کے کئی لوگ جب جوانی کی دہلیز تک پہنچے تو مال روڈ پر احتجاجی جلوس نکلا کرتے تھے۔ آغاز ان کا اکثر ہائی کورٹ کے احاطے سے ہوتا اور ریگل چوک تک پہنچنے کے بعد لاٹھی چارج، آنسو گیس اور اِردگرد کی گلیوں اور محلوں میں ”شرپسند“ مظاہرین کا ڈنڈے لہراکر پیچھا کرتی پولیس۔ 1969ءمیں پاکستان کے پہلے فوجی آمر کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے کئی ہفتے قبل تک یہ مناظر ہماری زندگی کا تقریباََ روزمرہّ تھے۔ ایوب خان کے چلے جانے کے بعد تشریف لائے ایک اور فوجی آمر۔ موصوف نے مگر عہد یہ کیا کہ قیامِ پاکستان کے 23سال بعد بالآخر اس ملک میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کرواکر اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کردیا جائے گا۔

کئی مہینوں تک پھیلی اس گہماگہمی کا محض ایک تماشائی نہیں بلکہ کسی حد تک خود کو بھی ایک متحرک کردار سمجھتے ہوئے، دل ودماغ پر چھایا رہا فیض احمد فیض کا یہ اعلان کہ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، کیونکہ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔
اپنی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد دُنیا کو سنوارنے سے کہیں زیادہ فکر طاری ہوگئی رزق کمانے کی۔ صحافت کو بالآخر پیشہ بنایا تو دن رات کی مشقت کے مقابلے میں تکلیف دہ حد تک کم اور وہ بھی کبھی کبھار ملنے والی تنخواہ نے دل کو متواتر حیران وپریشان ہی رکھا۔ کبھی احساس ہی نہ ہوا کہ ایک ویلنٹائن ڈے بھی ہوتا ہے۔
اس دن کے وجود کے بارے میں قطعی بے خبر ہوتے ہوئے کبھی یہ فیصلہ کرنے کا موقعہ بھی نہ ملا کہ اس دن سے وابستہ رسمیں ہماری دینی اور ثقافتی اقدار سے جڑی ہوئی ہیں یا یہودوہنود کی سازشوں میں سے ایک۔ مقصد جن کا ہمارے بچوں اور بچیوں کو بے حیائی کی راہ پر ڈالنا ہے۔
پچھلے کچھ برسوں سے البتہ اس دن سے مفر ممکن نہیں رہا۔ 24/7چینلز کی بھرمار ہے۔ ان سب کی سکرینوں پر زور دار مباحثے ہوتے ہیں۔ان مباحثوں کے شرکاءاس امر پر بضد نظر آتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کی شرعی اور ثقافتی حیثیت طے کردی جائے۔ یہ حیثیت طے ہو یا نہ ہو، جس نے اس دن کسی کو پھول بھیجنا ہیں وہ کسی واعظ کا دل دہلانے والا خطاب سن کربھی اس سے باز نہیں آئے گا۔ زاہد خشک کی پیروی کرنے والے افراد بھی ہمارے ”لبرلز“ کی جانب سے شخصی آزادیوں اور لوگوں کو ”خوشی کے موقعوں سے فائدہ اٹھانے دیں“ پر مبنی التجاﺅں سے اپنی خونہ بدلیں گے۔
ٹی وی مناظروں کے شوروغوغا سے قطع نظر کم از کم اسلام آباد کی حد تک میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر میں بیکریوں اور ان کے باہر لگے پھولوں کے ٹھیلوں پر ویلنٹائن ڈے کے موقعہ پرخوب رونق لگی رہی۔ میرے حساب سے بچوں کی مسکراہٹ کی طرح گلاب کی ایک شاخ کے نرخ نامناسب ہیں۔ لوگ مگر خریدرہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دل کی شکل والے غبارے بھی۔
آج کے زمانے میں تہواروں میں سادگی اور بے ساختگی باقی نہیںرہی۔ یہ Eventsبن چکے ہیں جنہیں مارکیٹنگ کے دھندے سے جڑے لوگ اشتہار بازی کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے منافع بخش دھندے بنا ڈالتے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ویلنٹائن ڈے کی دینی اور ثقافتی حیثیت کا تعین کرنے والی بحثوں میں مصروف لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ ان کی والہانہ لفاظی ویلنٹائن ڈے کو ”متنازعہ“ بناکر اس سے وابستہ دھندے کو مزید توانائی بخشتی ہے۔
مجھے اعتراض ہے تو صرف اتنا کہ ”ویلنٹائن ڈے“ کے دفاع کے لئے اپنے پھیپھڑوں پر زور ڈالتے، شخصی آزادیوں اور اجتماعی خوشی کے لئے بے چین دکھتے خواتین وحضرات کبھی اس بات پر بھی غور کرلیں کہ ہم نے ہماری اپنی دھرتی سے جڑے تہواروں کے ساتھ کیا کیا ہے۔
میں بہت چھوٹا تھا تو میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ جب سات آٹھ سال کے تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ جس وقت میری دادی کا انتقال ہوا، اس وقت وہ اپنے گھر کے کوٹھے پر چڑھے پتنگ اُڑارہے تھے۔ ان سے یہ واقعہ سن کر میرے ذہن میں پتنگ بازی سے خوف پیدا ہوگیا۔ میں اپنی ماں سے بے تحاشہ پیار کرتا تھا اور اسے کامل یقین تھا کہ پتنگ کی ڈور میری اُنگلیوں کو زخمی کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر بد صورت بنادے گی۔ قدیم لاہور کے عین وسط میں پیدا ہوکر بھی لہذا کبھی پتنگ بازی کی طرف مائل نہ ہوپایا۔
اپنے بچپن کی بسنت کے دن اگرچہ آج بھی بھول نہیں پایا۔ رشتہ داروں اور دوستوں کا ”پالااڑنت“ ہونے کے کچھ دن بعد مکانوں کی چھتوں پر اکٹھے ہونا۔ پوڑیاں،چھولے اور پٹھورے اور سب سے بڑھ کر ہریسہ۔ وہ کھاتے چلے جاﺅ اور خود کو چاروں طرف پھیلی مسرت سے وابستہ کرنے کی بے ساختہ خواہش۔
کوٹھوں پر جمع لوگوں میں سب سے نمایاں طورپر نظر آنے والی شے تھی یکسوئی۔ انگریزی میں ایک لفظ ہوتا ہے Trance۔ میں نے جب بھی یہ لفظ سنا تو ذہن میں ہمیشہ کسی ایسے شخص کی تصویر آئی جو آسمان کی بلندیوں پر چڑھی پتنگ پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے اسے ڈور دیتا مزید بلند کئے جارہا ہے۔ پھر ایک ایسی پتنگ کی تلاش جس سے پیچا لڑایا جائے۔ جب پیچ پڑجاتا تو کوٹھے پر موجود کئی افراد پتنگ اُڑانے والے کو بے صبری سے مشورے دیتے چلے جاتے۔ مخالف کی پتنگ کاٹ لی تو واہ واہ کے نعرے۔ دوسری صورت میں پتنگ اُڑانے والے کو طعنے جن میں حقارت سے کہیں زیادہ زور دیا جاتا مہارت پر۔ ہنر،یکسوئی اور مہارت کی صلاحیتوں کو جلادیتے اس بہت ہی صحت مند اور رونق والے تہوار کو ہم نے لاہور سے نکال باہر کیا۔
میرے شہر کی ثقافت اور تہذیب سے جڑے اس تہوار کے سفاکانہ خاتمے پر میں نے ٹی وی سکرینوں پر ویلنٹائن ڈے کے دفاع میں اجتماعی مسرتوں کے گن گانے والی زبانوں سے بسنت کی یاد میں کبھی ایسا والہانہ پن نہیں دیکھا۔
بسنت کی موت ہماری ثقافتی قدروں کی موت اس لئے بھی ہے کہ اس کے خاتمے کا نظر بظاہر سبب لوہے اور شیشے کے استعمال سے جڑی ڈور کو بنایا گیا۔ اس ڈور کی ایجاد ممکن اس لئے ہوئی کہ نودولتیوں کی انا اپنی پتنگ کٹنے والی ”توہین“ برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ ان کی انا، ہنر اور مہارت کے حسن اور گہرائی کے مقابلے میں جیت گئی۔ شوبازی بن گئی۔ کھیل کھیل نہ رہا۔ نمودونمائش کا بہانہ بن گیا۔
وہ جن کی ”گڈگورننس“ کے بہت چرچے ہیں، ہنر اور مہارت کی توقیر کرنے والے پتنگ بازی کے کھیل سے وابستہ ہزار ہا خاندانوں کی بھرپور معاونت سے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس امر کو یقینی بناسکتے تھے کہ ڈور اپنا کلاسیکی تشخص برقرار رکھ پائے۔ گڈگورننس والوں نے کبھی تردد ہی نہیں کیا۔ ان کی حمایت کو زاہدوواعظ بھی بے تحاشہ تعداد میں میسر ہوگئے جنہوں نے بسنت کو ”ہندوانہ تہوار“ ٹھہراکر اپنے تئیں ہماری دینی اور ثقافتی اقدار کو ”بچا“لیا۔
میلہ چراغاں کے ساتھ مگر کیا ہوا۔ یہ میلہ تو لاہور ہی کے ٹیکسالی محلے سے اٹھے ایک صوفی کے عرس سے وابستہ تھا،۔ شاہ حسین نام تھا اس صوفی کا جس نے مُلا سے ”دُنیا کیا ہے؟ محض لہولعب“ سنا تو ملامتی بن کر غرور پارسائی میں مبتلا منافقوں کو لاہور کی گلیوں میں سرخ لباس پہن کر دھمال ڈالتے ہوئے للکارنا شروع ہوگیا۔ اس کی للکار کو جدید دور میں اٹھتے چند ثقافتی سوالات کی روشنی میں سمجھنا ہو تو بس اتنا یاد کرلو کہ شاہ حسین کا ایک دوست مادھوہوا کرتا تھا اور کئی برسوں تک مجھے علم ہی نہ ہوا کہ مادھولال حسین، ایک نہیں دو مختلف افراد کا نام ہے۔ ویلنٹائن ڈے گیا بھاڑ میں۔ مجھے میرا لاہور واپس لوٹادو۔ وہ لاہورجو ابھی تک میٹروبس یا جلد نمودار ہونے والی اورنج ٹرین سے ابھی تک تھوڑا بہت بچا ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن