جماعة الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کی گرفتاری یا نظربندی اس وقت کی اہم خبر ہے۔گو کہ یہ واقعہ کوئی غیرمعمولی نہیں ہے لیکن اگر ہم اس کا تجزیہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ستر سال کے بعد بھی ہم حقیقی آزادی حاصل نہیں کرسکے۔کیا ان کی گرفتاری خود اپنے قومی ادارے عدلیہ کی توہین نہیں ہے؟کچھ عرصے قبل عدالت کے فیصلے کے مطابق انہیں تمام الزامات سے بری کیا جاچکا ہے۔سوال یہ کہ اب ان کی نظربندی کی بنیاد کیا ہے؟گویا اس فیصلے کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہماری عدلیہ بھی کوئی ذمہ دار ادارہ نہیں ہے لہٰذاہم عدلیہ پر بھی انحصار نہیں کرسکتے۔ اس طرح پورے عدالتی نظام کی نفی کی گئی ہے۔کیا حافظ سعید کو امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ انداز سے خوفزدہ ہوکر نظر بند کیا گیا ہے؟بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔پرویز مشرف پر بجا طور پر یہ الزام ہے کہ امریکہ کی ایک دھمکی پر ڈھیر ہوگئے جب ان سے یہ کہا گیا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا نہیں۔انہوں نے پوری قوم بشمول فوج کو ایک امریکی مشن میں جھونک دیا۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو امریکہ سے کوئی براہ راست کال آئی بھی نہیں اور یہ سرنگوں ہوگئے۔دراصل دین سے دوری اور آخر ت پر ایمان کے متزلزل ہونے کی بناءپر قوم کی قیادت انتہائی بزدل ہوچکی ہے ۔خود پر اعتماد نہیں رہا۔لہٰذا عافیت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ فرعون وقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیا جائے۔علامہ اقبال نے تو کہا تھا کہ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ۔ہم نے یہ طے کررکھا ہے کہ اسے سجدہ نہیں کرنا باقی سب کے سامنے سجدہ گوارا ہے۔
ٹرمپ کی آمد پر ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس نے
آتے ہی پوری دنیا میں کھلبلی مچا دی ہے۔اب اس کے بہت سے اقدامات پر مغرب میں بھی تنقید ہورہی ہے۔جہاں تک ٹرمپ اور نئی امریکی انتظامیہ کا تعلق ہے ، ان کی جانب سے اسلام کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز کردیا گیا ہے۔یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ وہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے اور مسلمانوں کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ہم اگر ان کے سامنے جھکے تو وہ ہمیں سجدے پر مجبور کردیں گے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اسلام سے قوت حاصل کریں بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے۔ ان کو خوش کرکے کیا ہماری بچت ہوجائے گی؟قرآن کا تو واضح اعلان ہے کہ تم ہرگز یہود و نصاریٰ کو راضی نہیں کرسکتے جب تک کہ ان کی ملت کی پیروی نہ کرو۔یعنی جب تک ہم اپنے اسلام سے اعلان برا ءت نہ کردیںاور اپنا اسلامی تشخص سو فیصد ختم نہ کردیںوہ ہم سے راضی نہیں ہوں گے۔ہم کتنا کچھ جتن کرتے رہے ہیں اس سے سب آگاہ ہیں۔پرویز مشرف کے دور میں کیا کچھ نہیں ہوا؟روشن خیالی اور اسلام کے سافٹ امیج کا نعرہ لگاکر اسے مسخ کردیا گیا ۔اسی روش کو موجودہ حکمراں آگے بڑھارہے ہیں۔ہر وہ مطالبہ جو وہاں سے آئے اسے پورا کرنا ہے۔ہم نے ان کو خوش کرنے کے لئے وطن عزیز میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا۔سودی معیشت پر جازم رہ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بغاوت کا اعلان کیا ۔اسلام کے خلاف ان کے واضح ایجنڈے کی قدم بقدم حمایت کی۔جو اللہ کے واقعی وفادار تھے ،ان کے خلاف امریکی کارروائی میں معاونت کی ۔اس کے فرنٹ لائن اتحادی بنے۔کیا کچھ نہ کیا گیا لیکن وہ پھر بھی ہم سے راضی نہیں ۔وہ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک ہم یہ اعلان نہیں کردیں کہ ہم آج سے اسلام سے مستعفی ہوتے ہیںاور جس مذہب کووہ قبول کرنے کا کہیں ہم اسے قبول نہ کرلیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور ان قائدین کو جن کے ہاتھ میں زمام کار ہے ، حقیقی ایمان اور دینی شعور سے بہرہ ور فرمائے اور سچا مسلمان بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔