ٹرمپ کا جنون اور پاکستان کا مستقبل؟(2)

دونوں خطوں میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں سوائے اس کے کہ دونوں طرف رہنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔انھوں نے مزید وضاحت کی کہ ”حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمان پائیدار سیاسی اتحاد پیدا نہیں کر پائے،عرب دنیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔مشرقی پاکستان کی زبان ،رواج،رہن سہن اور مغربی پاکستان کی اقدار سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔پاکستان کے قیام کی گرم جوشی ٹھنڈی پڑتے ہی اختلافات سامنے آنے شروع ہو جائیں گے۔جو جلد ہی اپنی بات منوانے کی حد تک پہنچ جائیںگے“۔ابو الکلام آزاد کے مطابق عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں یہ اختلافات شدت اختیار کر یں گے اور پاکستان کے دونوں حصے الگ ہو جائیںگے۔مولانا ابو الکلام آزاد یہ بات اپریل 1946ءکو اپنے ایک انٹرویو میں کہہ رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ”مغربی پاکستان “ خطے میں موجود تضاد ات اور اختلافات کا میدان جنگ بن جائے گا۔یعنی کہ مغربی موجودہ پاکستان جس طرح بنا ہوا ہے۔آج کل پنجاب،سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان کا قومیائی تشخص بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گا۔وہ وقت دور نہیں ہو گاجب عالمی قوتیںپاکستان کی سیاسی قیادت میں موجود مختلف عناصر کو استعمال کر کے اس کے حصے بخرے کر دیںگی۔جیسا کہ بلکان اور عرب ریاستوں کے ساتھ کیا گیا تھا اس وقت ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ” ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا“،اصل معا ملہ یقینی طور پر مذاہب کا نہیں بلکہ معاشی ترقی کا ہے،مسلم کاروباری قیادت کو اپنی صلاحیت اور ہمت پر شکوک و شبہات ہیں۔مسلمان کاروباری حضرات کو سرکاری سر پرستی اور مہربانیوں کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ نئی آزادی اور خود مختاری سے خوفزدہ ہیں۔وہ دو قومی نظریے کی آڑ میں اپنے خوف کو چھپاتے ہیںاور ایسی مسلمان ریاست چاہتے ہیں۔جہاں وہ بغیر کسی مقابلے کے معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا کہ وہ کب تک اس فریب کاری کو زندہ رکھ سکیں ۔پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مولانا نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے قیام سے ہی پاکستان کو بہت سنگین مسائل کا سامنا رہے گا جن میں شامل ہیں۔(1)کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نا اہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔(2 )بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہو گا۔(3 )پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان اور جنگ کے امکانات ہوں گے۔(4 )داخلی شورش اور علاقائی تنازعات ہوں گے۔(5 )پاکستان کے صنعتکاروں اور نودولتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار ہوگی۔(6 )نودولیتوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور پیدا ہو گا۔(7 )نوجوانوں کی مذہب سے دوری اور عدم اطمینان اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ ہو جائے گا۔(8 )پاکستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے عالمی قوتوں کی سازشیں بڑھیں گی۔
اس صورتحال میں پاکستان کا استحکام دباﺅ کا شکار رہے گا۔مسلم ممالک اسے کسی بھی طرح کا تعاون فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیںہوں گے۔مولانا ابو الکلام آزاد کے خدشات 100 فیصد درست ثابت ہو رہے ہیں۔آج پاکستان میں محب وطن قوتوں کو متحد ہونا گا،آج وہی نظام مستحکم ہوگا،جس نظام کی پاکستان کو ضرورت ہے۔پاکستان کی تباہی میں اگر وجہ نمبر (1)ہے،تو صرف ”کرپشن ہے“ ،نمبر (2) سستا اور جلدی”انصاف“ کی فراہمی کا نہ ہونا ہے،(3) ”بیرونی قرضوںسے نجات نہ لینا “ ہے،(4) پاکستان کو بیرونی ممالک کی آما جگاہ اور تجربہ گاہ بنانا ہے،(5) اپنے ہمسائیوں میں جو ممالک ہیں بھارت، افغانستان،ایران،چین اور روس کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات استوار نہ کرنا ہے ۔بھارت سے کشمیر سمیت تمام تنازعات پر قابل عمل حل تلاش کیا جائے۔امریکہ ،برطانیہ اور یورپ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کئے جائیں۔امریکی صدر کا جنون یقینا دنیا کا کل ہے۔اس لئے دنیا کے ساتھ ہم اپنی شرائط پر نہیں،باہمی اعتماد کے رشتے پر چل سکتے ہیں۔سب سے پہلے ”Pakistan “ہمارا قومی نعرہ ہونا چاہئے۔پاکستان کو مضبوط ،خوشخال،بنانا ہر پاکستان کا فرض ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...