گونگے کا خواب

اچھا وہ ہوتا ہے جو اس کام کے کرنے والے کے لیے لذت پیدا کردے۔ انسانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع رسانی کا موجب ہو سکے تمام نوع انسانی کے لیے موجب خیر و فلاح ہو، طارق بلوچ صحرائی اپنے افسانوں کے ذریعے یہ کام بخوبی انجام دے رہا ہے اسے بابوں سے محبت ہے وہ جوانی ہی سے فلسفی اور ’’صوفی بابا‘‘ ہو گیا جن لوگوں نے اس کے افسانے پڑھے ہیں مگر دیکھا نہیں جب وہ اپنا تعارف کراتا ہے تو لوگ یقین نہیں کرتے کہ یہی طارق بلوچ صحرائی ہے۔ مرحوم پولیس افسر اور شاعر شوکت ہاشمی نے ایک مرتبہ مجھے کہا تھا ’’میرا مرشد ہر ’’بابے‘‘ میں ہے ہر ’’ملنگ‘‘ میں ہے ہر ’’سائیں‘‘ میں ہے آپ کہیں تو آپ سے ملوا دوں گا چلو گے میرے ساتھ یہ ’’دربار‘‘ بڑے بڑے مسئلے منٹوں میں حل کر دیتے ہیں لے آؤ اپنے پورے معاشرے کو اور اس کے پورے گناہ آلود وجود کو قسم خدا کی ایک ہی داتا گنج بخشؒ، ایک ہی بابا فریدؒ، ایک ہی شاہ حسینؒ، ایک ہی بلھے شاہؒ، ایک ہی دتو ملنگ، ایک ہی سائیں منا کافی ہے۔ آپ کے اس شیطانی اور کرپٹ زدہ معاشرے کو پچھاڑنے کے لیے مجھے میرے ملنگ، میرے سائیں، میرے بابے بڑے پیارے ہیں تم بھی ان سے پیار کرو یہ دنیا کے اصل وارث ہیں میری ماں نے ایک مرتبہ حکم دیا تھا کہ لاہور جا کر سب سے پہلے داتا گنج بخشؒ کی چوکھٹ پر جا کر میرا سلام کہہ دینا وہ لاہور کا اصل بادشاہ ہے تجھے قبول کرے گا مجھے پھر کوئی غم یا وسواس نہیں رہے گا‘‘ شوکت ہاشمی نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کیا طارق بلوچ صحرائی بھی اپنے افسانوں میں ماں کے حوالے سے بات کرتا ہے وہ اپنے افسانے ’’گونگے کا خواب‘‘ میں لکھتا ہے ’’ رب نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے ماں بھی خود کو بھوکا رکھ کر اپنے بچوں کو کھلاتی پلاتی ہے جب تک بچے نہ سوئیں ماں نہیں سوتی میں نے تمام عمر اپنی ماں کو سوئے ہوئے نہیں دیکھا جب میں سوتا تھا تو وہ کاموں میں مصروف ہوتی تھی جنت ماؤں کے پاؤں کے نیچے ہے یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے ماں کی دعا تو سات ولیوں کی دعا سے بڑھ کر ہے۔ میری زندگی کی مثلت میں میری ماں بھی شامل ہے‘‘ خلیجی ملک میں ایک شادی کی تقریب بڑی دھوم دھام سے جاری تھی، دولھا، دلھن بڑی شان و شوکت کے ساتھ سٹیج پر براجمان تھے۔ دلھن نے دولھا کے کان میں کہا اپنی ماں کو سٹیج سے اتار دو کیونکہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں دولھا اٹھا، مائیک پکڑا اور تین دفعہ اعلان کیا مجھ سے میری ماں کون خریدے گا؟ اعلان سن کر حاضرین پر سناٹا طاری ہو گیا پھر دولھا بولا میں اپنی ماں کو خود ہی خریدوں گا۔ اس نے شادی کی انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور دلھن کو طلاق دے دی اس نے ماں کے قدموں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا میں نے نفع کا سودا کیا ہے حاضرین میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اعلان کیا میں اس نوجوان کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرتا ہوں اور کہا اس سے بہتر میری بیٹی کو شوہر نہیں مل سکتا اس نوجوان نے دنیا بھی کما لی اور اپنی جنت (ماں) بھی پالی۔ عربی میں ماں کے لیے ’’اُم‘‘ کا لفظ ہے یہ لفظ جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے ماخوذ ہے جب وہ بولنا سیکھنے سے پہلے اُم۔ اُم وغیرہ شروع کرتا ہے اس کے اولین معنے ماں کے ہو گئے اس سے امت ہے ماں کی آغوش کے اعتبار سے انسان کے مسکن کو اُم کہتے ہیں۔ قوم اور جماعت کو امت کہتے ہیں اس کے معنے ہر شے کی اصل اور بنیاد کے ہیں ہر وہ مرکز جہاں بہت سی چیزیں آ کر مل جاتی ہوں، اُم کہلاتا ہے۔ قانون کی اصل و بنیاد اسی سے امام ہے۔ ماں ہی سے امت اور امام ۔ امام وہ شخص جو آگے ہو وسیع راستے کو بھی امام کہتے ہیں۔ اس سے اَلامی ایسا شخص جو اپنی پیدائشی حالت پر ہو (جیسا ماں نے جنا تھا ویسا ہی رہے اسے مادر زاد بھی کہتے ہیں) مکہ کو اُم القریٰ کہتے ہیں ام القوم (قوم کا رئیس) ام النجوم (کہکشاں) ام الراس (دماغ) طارق لکھتا ہے’’اللہ سے مانگا کرو، مخلوق سے مانگنے میں صرف بھیک ملتی ہے‘‘ اللہ سے مانگنے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں وہ دلوں کا بھید جانتا ہے۔ صوفی شاعرہ شکیلہ جبیں کا کہنا ہے میرے گاؤں کی ایک عورت نے پوچھا بی بی! رب سے اپنی بات پہنچانے کے لیے عربی سیکھنی ہو گی۔ میں نے کہا۔ رب سے بات کرنے کے لیے زبان کی ضرورت نہیں وہ تو گونگے کی بات کو بھی سمجھ لیتا ہے۔ طارق بلوچ صحرائی نے اپنے افسانوں میں پریشانیوں اور اضطراب کا بھی ذکر کیا ہے اس نے ان پریشانیوں اور اضطراب سے بچنے کا طریقہ بھی بیان کیا ہے وہ دعا کرتا ہے کہ ’’اے رب میرا نامہ اعمال برف پہ لکھ اور اس پر اپنی رحمت کے سورج کو چمکتا رکھ‘‘
مقصد یہ کہ وہ پگھلے نہ اس نے پاکستان کو مذہب اور اسلام کو اپنا دین کہا ہے اس سے زیادہ دھرتی سے پیار کیا ہو سکتا ہے۔ اسے مذہب اوردین کا فرق معلوم ہے قرآن نے ’’دین‘‘ کالفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ضابطہ زندگی یا قانون حیات ہے طارق بلوچ صحرائی کے افسانے حقیقتیں اور سچائیاں ہیں وہ روحانی معالج ہے اس نے تخلص ’’صحرائی‘‘ رکھا ہے یعنی بیابانی، جنگلی صحرا نورد، جنگلوں میں پھرنے والے کو کہتے ہیں وہ صحرائی بھی ہے اور شہری بھی آج ذرائع رسل و رسائل کی عام فراوانی کی وجہ سے شہری تمدن کے اثرات دور دراز دیہات اورصحراؤں تک جا پہنچے ہیں اس لیے زیادہ فرق نہیں رہا۔ طارق کا اپنا اسلوب، اپنا لہجہ اوربات کرنے کا منفرد انداز ہے۔ اس نے اپنا ایک نیا سٹرکچر بنایا ہے۔ وہ آدمی کو انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ محبت کو دیکھنا چاہتا ہے جو الہام بن جاتی ہے۔ وہ ناموں کو عہدوں کے ساتھ دیکھ کر نادم ہو جاتا ہے وہ رب کو انسانوں کے درمیان دیکھنا چاہتا ہے مگر اس کا بابا کہتا ہے’’جھلیا ’’تنہا‘‘ تو تنہائی ہی میں ملتا ہے‘‘ مولوی ضابطے کی بات کرتا ہے جبکہ صوفی رابطے کی بات کرتا ہے انسان کو چاہیے آسمان کے بجائے زمین کو دیکھ کر چلے ٹھوکر نہیں کھائے گا۔ حدیث شریف ہے ’’آسانیاں پیدا کرو۔ مشکلات مت پیدا ہونے دو لوگوں کو خوش خبریاں دو، نفرت پیدا کرنے والی کوئی بات نہ کہو نہ کرو‘‘ ہم ہیں کہ دوسروں کی دیگ میں اپنا چمچہ چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...