قارئین اج پہلی دفعہ ہے کہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو نہ دماغ ساتھ دے رہا نہ دل اور نہ ہی ہاتھ قلم کا ساتھ دے رہے ہیں اسلئے یہ کالم اگر بلا عنوان ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ اج اس وقت کوئی سوچ دل و دماغ کا اِحاطہ ہی نہیں کر رہی جسکو الفاظ کا رنگ دیکر کاغذ کے کینوس پر پینٹ کر سکوں۔ اْسکی وجہ یہ ہے کہ اج میری آنکھیں بے نور ہیں خاصکر بہار کے موسم کے اس ابتدائی حصے میں جب ہر طرف رنگوں کی آمد آمد ہے بہار کے اس موسم میں جب کہیں گلاب کے پھول عطر بکھیر رہے ہونگے اور کہیں موتیا اور چمبیلی کے پھول گجروں کی صورت میں حسین کلائیوں کا زیور بن رہے ہونگے۔ جی ہاں جب کہیں یہی پھول گیسوؤں کی آرائش میں استعمال ہو رہے ہونگے اور کہیں یہ پھول تتلیوں کی صورت میں ٹہنیوں پر لہرا رہے ہونگے میری آنکھیں اس دفعہ شائد ان رنگوں ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہیں۔ شائد اس دفعہ کا پورا موسم بہار اس محرومی کا شدت سے احساس دلاتا رہے کیونکہ قارئین اج ان ظاہری انکھوں نے اسمبلی ہال کے سامنے بم دھماکے کے جو دل ہلا دینے والے مناظر دیکھے ہیں اْنھوں نے دل کی آنکھوں کی وہ بصارت ہی چھین لی ہے جس سے رنگوں کو پڑھا جاتا ہے جس سے دل ایک کسک محسوس کرتا ہے جس سے ایک تڑپ اٹھتی ہے وہ تڑپ جو ایک سوچ پیدا کرتی ہے۔ جو انسان کو زندہ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ قارئین اج لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک مقامی تنظیم نے اپنے فورم پر لاہور شہر کے بیشتر صحافتی ،سیاسی ،ادبی ،ریٹائرڈ عسکری ، انٹلیکچول اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ بھارت سے آئے بی جے پی کے ایک سابق راہنما سریندرا کلکرانی جو کہ واجپائی اور ایل کے ایڈوانی کے معتمد خاص بھی رہے ہیں اور جنھوں نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر ہندو متعصب اور شدت پشند تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے چہرے پر سیاہی پھینکنے کے حوالے سے بڑی شہرت پائی ایک نشست کا اہتمام کیا۔ یہ خاکسار بھی اس نشست میں صرف اس لئے گیا کہ دیکھوں نام نہاد ٹریک ڈپلومیسی کے حامی اپنے موقف کی حمایت میں مودی سرکار کے جارحانہ موذی رویے پر کیا دلیلیں اور تاویلیں پیش کرتے ہیں اور پھر اس مذاکرے کی روشنی میں اپنے قارئین سے گفت و شنید کا ایک دور منعقد کروں۔ جناب کلکرنی اور محترم خورشید قصوری صاحب کے خیالات سنے۔ محترم شمشاد احمد خان سابق سیکرٹری خارجہ جناب شاہد ملک بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر کی حقیقت پر مبنی سوچ سے آگاہی ہوئی اور پھر سابق گورنر پنجاب جناب خالد مقبول کی فوجی نظریے پر مبنی موقف سے بھی آگاہی ہوئی۔ صحافت کی دنیا کے معتبر جانیوالے ناموں جناب امتیاز عالم، محترم سلمان غنی، قیوم نظامی کی طرف سے پوچھے جانیوالے سوالات سے لطف اندوز ہونے کا بھی موقع ملا خاصکر جب محترم قیوم نظامی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنے ادارے نوائے وقت کا تعارف کروایا تو کلکرانی صاحب اور دیگر حاضرین کے چہروں پر عیاں ہونیوالے تاثرات نے ایک عجب احساس تفخرانہ نوازا کہ اس خاکسار کا تعلق اس قبیلے سے ہے جو پاکستان کی پہچان میں اپنا الگ مقام رکھتا ہے۔ محفل کے اختتام پر دل یہ کر رہا تھا کہ کلکرانی صاحب اور دیگر حامیوں سے ایک سوال کروں کہ آپکی باتیں بہت خوبصورت اپکے وچار بہت اعلی یہ خاکسار صرف اپنے سکول اف تھاٹ کی تشفی کیلئے صرف اور صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ کسی بھی تحریک کسی بھی عمل کی کامیابی کیلئے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہوتا ہے ایک دوسرے پر اعتماد جسے دوسرے لفظوں میں ٹرسٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ جب ایک فریق کھلے عام یہ دعوی کر رہا ہو کہ اپکے ملک کو ہم نے پہلے بھی توڑا اور ضرورت پڑنے پر اس عمل سے پھر گریز نہیں کرینگے۔ اپکے صوبے بلوچستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے ثبوتوں پر سینہ ٹھونک کر اس پر فخریہ کلمات ادا کر رہا ہو تو اس سفر کے آغاز کا خواب ایک دیوانے کا خواب نہیں تو پھر کیا ہے۔ لیکن پھر سوچا کہ اپنے اس سوال کو اپنے ادارے کی وساطت سے اوپن ڈیبیٹ کیلئے کیوں نہ پیش کرؤں۔ ہاں اس نشست میں کلکرانی صاحب کی جس بات نے تشفی بخشی وہ انکا یہ اعتراف تھا کہ ان دنوں بھارت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے اسے justify کرنا خاصا مشکل ہو رہا ہے اور بھارتی فوج کے کچھ جوان اس عمل کو پسندیدگی کی آنکھ سے نہیں دیکھ رہے۔ اللہ خیر کرے دیکھیں انکے اس بیان اور اعتراف پر بھارت واپسی پر انکا کیسا سواگت ہوتا ہے خاصکر اوم پوری کی المناک ہلاکت کے تناظر میں جب اْنھوں نے ایک ٹی وی مذاکرے میں حقیقت پر مبنی پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔نشست کے آختتام پر محترم فرخ سہیل گوئندی اور جناب خالد محمود رسول کی ہمراہی میں ابھی ہال سے باہرنکلے تھے کہ باہر زور دار دھماکے کی آواز سنی اور پھر وہ دل سوز اور دلخراش مناظر جنہیں ضبط تحریر میں لانا ناممکن۔ قارئین یہ دھماکے صرف ہمارا مقدر ہی نہیں اسطرح کے المیے دوسری اقوام اور ممالک میں بھی ہو رہے ہیں۔ ترکی جیسی ابھرتی معیشت اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی دہشتگردی کا یہ ناسور اپنے بچے دے رہا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ان واقعات سے نمٹنے کیلئے وہاں ایک منصوبہ بندی نظر اتی ہے وہ ان عوامل سے نمٹنے کیلئے مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے منصوبے صرف کاغذوں کی زینت بنتے ہیں۔ باقی باتوں کو تو چھوڑیں لاہور شہر کے ہر چوک چوراہے بازار گلی محلے اور نکڑ کو جسطرح بھکاری مافیا نے اپنے زیر تسلط کر لیا ہے کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے کہ یہ دہشتگردی میں کتنا بڑا ٹول استعمال ہو سکتا ہے اور اس سے کس بڑے پیمانے پر تباہی ہو سکتی ہے۔ ان غفلتوں نے جسے ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے ہمیں اپاہج کر دیا ہے۔ ہم نے کیا کبھی یہ غور کیا ہے کہ ان واقعات نے ہمیں کس حد تک ذہنی مریض بنا دیا ہے کہ کوئی مثبت سوچ ہمارے ذہنوں کی طرف رخ ہی نہیں کر رہی۔ یہ بات میرے اور آپکے سوچنے کے ساتھ ساتھ ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ناسور سے نمٹنے کیلئے کوئی مربوط حکمت عملی ترتیب دیں۔
بلا عنوان
Feb 15, 2017