میں شہید احمد مبین اور شہید زاہد گوندل سے مل چکا تھا۔ وہ دونوں بہت اچھے پولیس افسر تھے۔ سی سی پی او امین وینس تو میرے ساتھ بہت اچھا تعلق رکھتے ہیں‘ ان سے کئی بار ملاقات ہوئی ہے۔ وہ بہت زبردست اور اچھے پولیس افسر ہیں۔ وہ بڑی مشکل سے بچے، مگر وہ دلیر آدمی ہیں۔ بہت معمولی زخم انہیں آئے، وہ تھوڑی دیر کے لئے کہیں چلے گئے اور پھر فوراً واپس آئے اور خود زخمیوں کو ریسکیو کرنے والوں کی نگرانی کرتے رہے۔ نایاب حیدر پی سی او آئی جی پولیس بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایس پی ایڈمن ایاز سلیم بھی سی سی پی او امین وینس کے ساتھ بھاگتے ہوئے موقع پر پہنچے جبکہ لوگ موقع سے دور بھاگے جارہے تھے‘ زخمیوں کو ریسکیو کرکے فوری طور پر ہسپتال لے جانے میں مصروف لوگوں کی نگرانی کرتے رہے۔ ایمبولینس ابھی نہیں پہنچی تھی تو زخمیوں کو پولیس کی گاڑیوں میں ڈال کر ہسپتالوں کی طرف روانہ کیا گیا۔ شکر ہے اس جگہ سے سارے ہسپتال نزدیک ہیں، گنگارام ہسپتال کی طرف زیادہ زخمیوں کو بھیجا گیا۔ میو ہسپتال اور سروسز میں بھی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی‘ وہاں بھی زخمیوں کو پہنچایا گیا۔
ایک بات آج ثابت ہوئی کہ پولیس افسران لوگوں کے دکھوں میں پوری طرح شریک ہونے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ میں نے امام کعبہ کی لاہور آمد پر شاہی مسجد میں وردی سمیت امین وینس کو زمین پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہی خاک نشینی کا وصف آج بھی ظاہر ہو رہا تھا‘ ان کی وردی پر مٹی اور خون لگا ہوا تھا۔
چیئرنگ کراس مال روڈ تو ایک مرکزی جگہ ہے ہائیکورٹ کی طرف سے اس فیصلے کہ باوجود کہ مال روڈ پر کوئی مظاہرہ نہیں ہوگا۔ لوگ مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ چیئرنگ کراس پر آکر تقریریں کرتے ہیں۔ اس کے لئے ناصرباغ بہت موزوں جگہ ہے‘ یہاں ہر طرح کے مظاہرین جمع ہوں اور خوب تقریریں کریں۔ سامعین میں لوگ نہ ہوں گے تو ان کی صدائیں درخت اور درخت پر بیٹھے پرندے سنیں گے۔ مظاہرین کے علاوہ عام لوگ بھی ذلیل وخوار ہوتے ہیں۔
ہمارے افسران مظاہرے کے بعد مطالبات تسلیم کرلیتے ہیں تو پہلے بھی مذاکرات ہوسکتے ہیں مگر ہماری بیورو کریسی بُرا کریسی بننے پر تُلی ہوئی ہے۔ ایک من چلے نے عجب بات کی کہ یہ دھماکہ جعلی دوائیں بنانے والوں کے خلاف تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوائیں بنانے والوں نے کیوں مظاہرہ کیا؟ وہ جعلی دوائیں بنا کر پہلے ہی لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ یہ دھماکہ اصل میں جعلی دوائیں بنانے والوں کے خلاف احتجاج تھا‘ مگر اس میں بے گناہ لوگ بھی مر گئے تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟
احمد مبین تو مظاہرین سے مذاکرات کرنے کی تیاری کر رہے تھے اور لوگوں کو بڑی محبت سے سمجھا رہے تھے۔ شاید یہ کام دھماکہ کرنے والوں کو پسند نہ آیا کہ اب پولیس افسران بپھرے ہوئے لوگوں کے ساتھ بھی نرمی سے بات کرنے لگے ہیں۔ احمد مبین احتجاج کرنے والوں سے کہہ رہے تھے ”آپ نیک لوگ ہیں‘ میں تو گنہگار آدمی ہوں“ شاید یہ آخری الفاظ تھے جو ان کی زبان سے نکلے۔ دھماکہ ہوا اور انہوں نے اپنی جاں جان آفرین کے سپرد کر دی۔مظاہرے اور دھماکے میں شاید اتنے بڑے وہ پہلے پولیس افسر تھے جو شہید ہوئے۔ ان کے ساتھ ایس ایس پی ایڈمن زاہد گوندل بھی موت کی گود میں چلے گئے۔ اب پولیس افسران اس طرح بھی قربانی دے رہے ہیں۔ پولیس افسران کے لئے عام لوگوں کی رائے بھی اچھی ہے۔ وہ صرف پولیس اہلکاروںکے مظالم اور کارروائیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ آخر مظاہرے ہمارے ہاں کیوں ہوتے ہیں‘ یہ جو افسران ہیں یہ پہلے ہی ایسا اہتمام کیوں نہیں کرتے کہ کوئی مشکل پیدا نہ ہو۔ مظاہرے لوگ اور ملازمین مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ ہمارے افسران مظاہرے میں لاٹھی چارج اور ایک دو آدمیوں کے مرنے کے بعد وہ سب مطالبات مان لیتے ہیں جو انہوں نے پہلے تسلیم نہیں کیے تھے۔
مظاہرے کے بعد بے چاری پولیس کو بپھرے ہوئے اور ناراض مظاہرین کے آگے چھوڑ دیا جاتا ہے‘ یہ زیادتی ہے۔ اب دو بڑے پولیس افسران کی شہادت بھی اسی وجہ سے ہوئی کہ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مصالحت نہیں ہوسکی۔ ہمارے ان مختلف اداروں کی مشکلات اور مسائل کا سبب کون ہے۔ جائز مطالبات نہیں مانے جاتے تو ناجائز اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ دو اچھے پولیس افسروں اور دوسرے قیمتی اہلکاروں اور لوگوں کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے۔ اس نقصان کا اصل ذمہ دار کون ہے اس پر غور وخوض ہمارا فرض ہے۔
مال روڈ پر ہائیکورٹ کے فیصلے کے برعکس مظاہرے کیوں ہوتے ہیں۔ چیئرنگ کراس بھی مال روڈ کا حصہ ہے۔ ناصرباغ میں بہت جگہ ہے۔ مینار پاکستان کے اردگرد پارک میں بھی بہت کھلی جگہ ہے۔ مظاہرین کے لئے یہ بھی بہت موزوں جگہ ہے‘ یہ بھی شہر کی مرکزی جگہ تصور کی جاتی ہے۔
مظاہرین بھی جب تک مال روڈ پر نہ آئیں‘ مسجد شہداءکے پاس ریگل چوک اور چیئرنگ کراس پر نہ آئیں تو ایسا لگتا ہے کہ مظاہرہ ہوا ہی نہیں۔ دو بڑے پولیس افسران اور کئی معصوم لوگوں کی شہادت بہت کچھ سوچنے کے لئے کافی ہے!!!