اسلام آباد (نامہ نگار) پی اے سی نے وزارت خزانہ کو 15 مئی کے بعد ترقیاتی فنڈز جاری نہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر سال 15مئی کے بعد جاری ہونے والے فنڈز میں قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، ترقیاتی بجٹ کے 25 فیصد فنڈز ضائع کردیئے جاتے ہیں، اصل گڑ بڑ سرکاری اداروں کو ملنے والی گرانٹس میں ہے۔کمیٹی نے بہارہ کہو ہائوسنگ سکیم معاملے پر نیب سے 15دن میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ مبینہ کرپشن کی تحقیقات 10 برس سے مکمل نہ ہونے پر چیئرمین نیب کو 27 فروری کو طلب کرلیا۔ کمیٹی رکن اعظم سواتی نے کہا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی میں9ارب روپے لوٹے گئے ہیں، کس نے چیکوں پر دستخط کئے ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے اتنا پیسہ کھایا جا رہا ہے، قوم کا ٹیکس کا پیسہ کرپشن کی نذر ہو رہا ہے، سکیم مکمل ہونے سے پہلے فنڈز کھالئے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آڈیٹر جنرل کو بجٹ گرانٹ نمٹانے سے پہلے دیکھنا چاہیے، اس میں خزانہ ڈویژن کے ساتھ ساتھ وزارت کی بھی نااہلی ہے، آڈیٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ میکنزم ہے اور آئندہ میکنزم ایسا بنایا جائے گا کہ بجٹ گرانٹ کی سرٹیفکیشن کی جائے گی اور کنٹرولر جنرل اکائونٹس یہ کام کرتا ہے اب آڈیٹر جنرل کرے گا، کمیٹی رکن محمود خان اچکزئی نے کہا کہ خزانہ ڈویژن کو پتہ ہے کہ 15مئی کے بعد فنڈز جاری نہیں کئے جاتے تو کیوں جاری کئے گئے، کبھی کبھی آڈٹ مک مکا کرتا ہے۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ بہارہ کہو ہائوسنگ سکیم میں 3ہزار کنال کا ٹھیکہ دیا، 9لاکھ 50ہزار فی کنال زمین کی کل قیمت 1.8بلین روپے ادا بھی کئے گئے،رپورٹ کمیٹی کے سامنے ہے اور 2صفحوں کی رپورٹ بغیر دستخط کے آئی ہے۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ سرکاری خزانے سے پرائیویٹ پرچیوں کے ذریعے ٹھیکے داروں کو رقوم کی ادائیگی کی جاتی ہے جس کا مقصد سرکاری طریقہ کار کو ناکام بنانا ہے۔ فنڈز لیپس ہونے سے بچانے کے لئے 69 کروڑ روپے غیر قانونی طورپر اکائونٹ میں رکھے گئے۔ سیکرٹری ہائوسنگ نے پی اے سی کو بتایاکہ یہ طریقہ کار طویل عرصہ سے جاری ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وزارت خزانہ کو 15 مئی کے بعد ترقیاتی فنڈز جاری نہ کرنے کی ہدایت کی۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ مالی سال 2015-16ء ختم ہونے سے چند دن قبل 13کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔ یہ رقم استعمال کرنے کی بجائے ضائع کردی گئی ۔ خورشید احمد شاہ نے کہاکہ ہرسال ترقیاتی بجٹ کے 25 فیصد فنڈز ضائع کردیئے جاتے ہیں ۔اس حوالے سے محکمہ آڈٹ کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ اصل گڑ بڑ سرکاری اداروں کو ملنے والی گرانٹس میں ہے۔ ہمیں یہ بات ساڑھے چار سال بعد سمجھ میں آئی ہے۔ ہم سیاستدان ہیں ہم نے اکائونٹس میں پی ایچ ڈی نہیں کررکھی۔ آڈیٹر جنرل کو کنٹرول جنرل اکائونٹس کی طرف سے آنے والی گرانٹس کو بھی دیکھناچاہیے۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ 2001ء سے پہلے گرانٹس کا معاملہ ہم خود دیکھتے تھے، فنانشل مینجمنٹ کے ایشوز کو دیکھنے کے لئے کوئی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔ پی اے سی نے ارکان فیڈرل لاجز کراچی، لاہور ، پشاور اور کوئٹہ میں صفائی کے ناقص انتظامات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنے پیسے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن وہ کہاں جا رہے ہیں اس کاکوئی پتہ نہیں۔ سیکرٹری ہائوسنگ نے کہاکہ ہمارے پاس دھوبی کو دینے کے لئے بھی فنڈز نہیں ہیں۔ بجٹ میں فنڈز مل جائیں تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہاکہ پارلیمنٹ لاجز کی تعمیر میں سکریپ کا سریا استعمال کیا جا رہا ہے ، پہلے یہ سریا ایک مسجد میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اب لاجز میں لا کر ڈمپ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ این اے 21 مانسہرہ میں 3 تین ارب روپے کے فنڈز میں کرپشن کا کیس نیب میں بھی ہے، موجودہ چیئرمین نیب اچھا کام کررہے ہیں۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ نیب عدالتیں اربوں روپے کے کی کرپشن کی مقدمات نہیں سن رہیں۔ پی اے سی نے کہا کہ بارہ کہو میں ہائوسنگ منصوبے کے لئے زمین مہنگے داموں خریدی گئی۔ 50 سے 70ہزار روپے فی کنال والی زمین ساڑھے 9 لاکھ روپے فی کنال میں خریدی گئی۔ نیب نے 10 سال میں تحقیقات مکمل نہیں کیں۔ پی اے سی کو بتایاگیا کہ 3 ہزار ایکٹر زمین کی خریداری کا معاہدہ 2009ء میں کیا گیا ۔ نیب نے 2 صفحات کی رپورٹ تیار کی جس پر دستخط بھی نہیں ہیں۔ نیب حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ ابھی ثبوت اکٹھے کئے جارہے ہیں۔