سُنتا جا شرماتا جا…!

یادش بخیر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پاکستان بننے کے بعد جب پہلی دفعہ ڈھاکہ گئے تو انہوں نے صاف لفظوں میں یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اس پر مشرقی پاکستان میں شور مچا بھارتی لابی اور تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کی بھاری اکثریت موجود تھی جنہوں نے قائداعظم کے اس اہم اعلان کو بنیاد بنا کر لسانی تعصب پھیلایا ہنگامے کرائے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ان ہنگاموں کو سامنے رکھ کر مغربی پاکستان کے سیاست دان ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرتے جس سے بنگالی اور پنجابی تعصبات کو ابتدا میں ہی ختم کر دیا جاتا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ضروری تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان طویل فاصلہ اور سمندر حائل ہے اس طویل فاصلے اور سمندر کا فائدہ دشمن بھارت اُٹھا سکتا تھا جو اُس نے اٹھایا بنگالی، پنجابی کے حوالے سے جتنی بھی نفرت پیدا ہوئی اس کا سبب یہی تھا کہ ہم نے دشمن کی سازشوں اور ’’فاصلے‘‘ کی حقیقت کو نہ سمجھا اِدھر مغربی پاکستان میں جو لوگ جمہوریت کے نام پر حکمران بنے وہ پاکستان کی آزادی کو من و سلویٰ سمجھ کر لوٹ مار میں مصروف ہوگئے۔ زمینداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، تمن داروں، نوابوں اور سرداروں کو برصغیر میں مسلمانوں کے مستقبل اور مشرق وسطیٰ اور سائو تھ ایشیا وغیرہ میں پاکستان کے مرکزی اور فیصلہ کن کردار کی اہمیت کا شعور ہی نہ تھا۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت میں ہندو مسلم کشمکش کوئی نئی بات نہیں تھی انگریز ہندو گٹھ جوڑبھی قائداعظم محمد علی جناح کے سامنے بے بس تھا۔ قائداعظم جمہوریت کے نام پر ہندو اکثریت کو برصغیر کے مسلمانوں کیلئے خطرہ سمجھتے تھے جو بعد میں درُست ثابت ہوا۔ 70 سال کے اس طویل عرصے میں ہندو انتہا پسندی کا سیاہ چہرہ کانگرسی مسلمانوں کو نظر نہیں آیا وہ آج کھل کر سامنے آچکا ہے۔ بھارت کی کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی آب ہے۔ نام نہاد سیکولر بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہاہے اس پر ساری دنیا خاموش ہے۔ بی جے پی حکومت کا تو منشور ہی ’’ہندو توا‘‘ یعنی ہندو، ہندی اور ہندوستان ہے اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں ہندوئوں کے علاوہ کسی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارت کی جارحانہ حکمت عملی کے سبب تین جنگیں ہوچکی ہیں اِن جنگوں کا بڑا فائدہ پاکستان کو یہ ہوا ہے کہ پاکستانی قوم وجود میں آئی، آج پاکستان ایک طاقتور فوج کا مالک بن چکا ہے اور بھارت سے برابری کی سطح پر سمجھوتے کی بات کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بات اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کیمطابق دُرست ہے لیکن اسلام دشمن مغربی طاقتیںکھل کر بھارت کی مدد کرتی نظر آ رہی ہیں۔ آج اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو اسکی وجہ بھی بھارت کے پاکستان دشمن عزائم ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے بعد الطاف حسین، اچکزئی، اسفندر یار ولی، مولانا فضل الرحمن، نواز شریف اور زرداری کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ اگر خدانخوستہ خدانخواستہ پاکستان بنگلہ دیش کی طرح بھارت کا کٹھ پتلی ملک بن جائے تو مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ حسینہ واجد کر رہی ہے یا میان مار کی سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ بھارت اپنی اکھنڈتا کیلئے ہر وہ حد جس کا تعلق انسانیت اور اصولوں سے ہے عبور کرتا چلا آرہا ہے۔ اب تک جتنے معاہدے بھارت کے ساتھ ہوئے چاہے وہ سندھ طاس معاہدہ ہو، سرکریک ، جونا گڑھ، رن آف کچھ، سیاچن، کشمیر وغیرہ ان تمام تنازعات کے حوالے سے بھارت نے اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک کے طے شدہ اصولوں سے انحراف کرکے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کے اندر خانہ جنگی کروانے کیلئے بے تحاشہ دولت خرچ کی جا رہی ہے۔ بلوچستان، جنوبی وزیرستان اور سوات جہاں بھارت نے پاکستان دشمنوں کے مضبوط گڑھ قائم کئے تھے اللہ کا شکر ہے پاک فوج نے ضرب عضب آپریشن کے ذریعے انہیں نیست نابود کر دیا ہے۔ بلوچستان کے بارے میں اجیت دوول جو بھارت کی نیشنل سیکیورٹی کا وزیر ہے، تین چار مہینے کی تاریخ مقرر کرکے دنیا کو یہ بتاتا رہا کہ بلوچستان بہت جلد آزاد ہو جائیگا پربھوشن یادو جو انڈیا کی نیوی کا ایک آفیسر ہے اور ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف تھا اور جسے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا کے اعترافی بیانات شائع ہوچکے ہیں اس کے باوجود بھارت عالمی عدالت انصاف میں چلا گیا تاکہ بین الاقوامی دبائو ڈال کر بھارتی جاسوس کو رہا کر وایا جاسکے جب سے سی پیک معاہدہ سامنے آیا ہے بھارت اور امریکہ کچھ زیادہ ہی پاکستان دشمنی میں متحرک نظر آتے ہیں کراچی کے حالات جنہیں رینجرز نے بڑی حد تک کنٹرول کر لیا تھا۔ وہاں اب ازسر نو انتشار اور ٹارگٹ کلنگ منظم ہوتی نظر آرہی ہے سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے دشمن کو اپنی تخریبی کارروائی ازسرنو منظم کرنے کا موقع ملاہے، میاں محمد نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے صدمے سے دو چار ہیں اور موقع محل دیکھے بغیرجس طرح وہ پاکستان کی عدلیہ اور افواج پاکستان کو للکار رہے ہیں اُس کی کسی پاکستانی سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سخت ذہنی دبائو کا شکار ہیں خدانخواستہ یہ دبائو ان کی صحت کیلئے مضر ثابت نہ ہو۔ میاں صاحب اقتدار واپس لینے کی جلدی میںاپنا،اپنے خاندان کااور مسلم لیگ (ن) سب کا مستقبل دائو پر لگا چکے ہیں۔ نااہلی کے اس شور شرابے میں 6/7 لیگی رہنما اپنی حدود سے تجاوز کر بیٹھے اور توہینِ عدالت کے مرتکب ہوچکے ہیں ان میں سے ایک تو جیل میں سزا بھگت رہا ہے اور باقی عدالت عالیہ کے سامنے دست بستہ پیش ہو رہے ہیں۔ نیب کی انکوائریاں جیسے جیسے سامنے آرہی ہیں۔ یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اداروں کے سربراہوں کو کس طرح اس منصب کیلئے اسے ضروری صلاحیت اور تعلیم نہ ہونے کے باوجود پابندیوں سے مستثنیٰ کرکے لاکھوں روپے ماہانہ پر ملازم رکھا گیا۔ عدالت نے متعلقہ لوگوں کوطلب کرلیا ہے۔ جن اداروں کا یہ فرض تھا کہ وہ ریاست کو مقرر کردہ قواعد وضوابط کے مطابق چلاتے اور جو شخص اپنی حدود سے تجاوز کرتا اسے کیفر کردار تک پہنچاتے ان اداروں کے سربراہوں کو مراعات دے کر غیر موثر اور ناکارہ بناکر ریاست کو مفلوج بنا دیا گیا۔ اس وقت بھارت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ پاکستان کیخلاف کوئی بڑی کارروائی کرے۔ افواج پاکستان اور عدلیہ کی آئین کے مطابق یہ ذمہ داری ہے کہ اس سارے کھیل کی تحقیق وتفتیش کے بعد پاکستان کیخلاف سازش کرنے والوں کو عبرت کا نمونہ بنا دیا جائے!

ای پیپر دی نیشن