اسرائیل سارے عالم اسلام کو للکار رہا ہے وہ شام میں ایران کے فوجی اڈوں پر حملے کر رہا ہے یہ اس کا ’دل گردہ‘ ہے کہ شام میں براہ راست آٹھ مقامات پر حملے کرے اور ایرانی فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنائے۔ مریکہ اور اسکے ’لے پالک‘ بھوکے بھیڑئیے شام کو بھنبھوڑ رہے ہیں یمن گزشتہ چار برس سے خاک و خون میں نہا رہا ہے لاکھوں نہیں ' 10لاکھ بچے بمباری اور بیماریوں کے ہاتھوں زندہ درگور ہو چکے ہیں سرد جنگ سے نکلی یونی پولر دنیا کی وحشت بے گناہ معصوموں کا خون پی رہی ہے۔ ’کافر اور ملحد روس‘ کو گرانے کیلئے ہم جیسے ’مجاہدین‘ کام آئے تھے، اب ’کرائے کے قاتلوں‘ کی مانگ عروج پر ہے۔ شام سے کرائے کے قاتل یا مجاہد ڈیورنڈ لائن کے اس پار ٹھکانے بنا رہے ہیں۔ امریکہ کا نیا مکروہ جھوٹ شام کو ٹکڑے کرنے کا نیا منصوبہ ہے۔ امریکی بمباری سے شام میں روسی باشندوں کی ہلاکت کا قضیہ روس امریکہ نئی کشیدگی جنم دے رہا ہے۔
شام کی تقسیم کے امریکی منصوبے کا انکشاف روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے کیا ہے امریکی کہہ مکرنیوں پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ شام کی جائز اور قانونی حکومت نے امریکہ بہادر کو دعوت دی نہ مدد کیلئے پکارا، امریکہ خود ہی گھْس آیا کہ داعش کے خاتمے کے بعد فوج واپس لے جائیگا۔ روسی وزیر خارجہ نے گواہی دی کہ یہ یقین دہانی اسے خود امریکہ نے کرائی تھی۔ ’وہ امریکہ ہی کیا جو وعدہ پورا کرے‘۔
لیوروو کے خیال میں امریکہ کے اصل عزائم کچھ اور ہیں۔ تازہ امریکی بیانیہ کچھ یوں ہے کہ شام میں مستحکم سیاسی عمل یقینی بنانے کیلئے اسکی فوج موجود رہے گی۔اس کا سیدھا مطلب شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ یعنی پرنالہ وہیں رہے گا۔ ’سْوچی‘ میں منعقدہ کانفرنس کے دوران روسی وزیرخارجہ نے کہاکہ ہم امریکہ سے شام کی تقسیم کے بارے میں سوال پوچھ رہے ہیں۔ یعنی روس، ایران اور دیگر کی مداخلت کی وجہ سے جس مقصد بد میں ناکام ہوا، اب نئے بھیس میں اسے حاصل کرنے کی تاک میں ہے۔
فی الوقت شام میں دو لاکھ امریکی فوجی موجود ہیں۔ دسمبر میں پینٹاگون کے اعلان کے مطابق جب تک ضرورت ہوگی، امریکی فوج شام میں موجود رہے گی۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ امریکی فوج کی موجودگی سے دہشت گرد واپس نہیں آئینگے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کی مدد کیلئے وہاں آتش وآہن برسانے کیلئے ہمہ وقت موجود رہے گا۔ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن اس امر کی تائید کرچکے ہیں۔ اس عالمی بدمستی کے دوسری جانب دوسری جانب روس ہے جو شام کی حکومت کی درخواست پر وہاں متحرک اور فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ شامی حکومت کی اجازت کے بغیر امریکہ کے پاس کسی ملک میں فوجی موجودگی کا کوئی اختیار، منطق یا جواز نہیں۔
مسئلہ داعش ہے، نہ دہشت گردی۔ مسئلہ بشار الاسد کو ہٹانا، ایران کا اثر ختم کرنا اور اپنی مرضی سے ارض شام کو تصرف میں لانا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ شامی حکومت مخالف دھڑوں کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ پیسے کی فراوانی اور ہتھیاروں کی فراہمی دھڑا دھڑ جاری ہے۔ شام کی آزادی کے دلفریب نعرے پر قائم ’فری سیرین آرمی (ایف ایس اے) اور کردوں کی غالب اکثریت پر مشتمل ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ (ایس ڈی ایف) ان گروہوں میں شامل ہے جو امریکی ’فیاضی‘ سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ کبھی یہ عنایات ’افغانستان‘ میں لڑنے والے ’مجاہدین‘ کے حصے میں آیا کرتی تھیں۔
روسی وزیرخارجہ نے خبردار کیا کہ امریکہ حکومت شام کے مخالف طبقات کے ساتھ سلسلہ جنبانی بڑھا رہا ہے اوران کے ہاتھوں میں ہتھیار تھمائے جا رہے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ترکی کو بھی ہاتھ پائوں باندھ کر اس آگ میں جھلسانے اور ایک اور مسلمان ملک کا وجود لہو لہو کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہیں۔ ترکی میں قائم تنظیم ’ایف ایس اے‘ کو ایک اور تنظیم ایس ڈی ایف کے کچھ حصوں سے ملا کر کردشعوام کے حفاظتی یونٹس (اے پی جی) کے نام سے قائم تنظیم سے لڑایا جا رہا ہے۔ ترکی کو اس امر پر شدید اعتراض ہے۔ ان معاملات کے نتیجے میں انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان شدید کشیدگی جنم لے چکی ہے۔
اسی اثناء ’ایف ایس اے‘ کی کوشش ہے کہ امریکہ کو قائل کرکے سی آئی اے کا پروگرام دوبارہ بحال کرائے کہ ’معتدل باغیوں‘ کو سرمایہ، ہتھیاروں اور تربیت کی فراہمی کا عمل پھر سے شروع ہو۔ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ جولائی میں اوبامہ دور 2013ء کا یہ پروگرام بند کر دیا تھا۔ معترض روس کا موقف ہے کہ ’معتدل باغیوں‘ کے نام پر آنے والے یہ ہتھیار اکثر و بیشتر جہادیوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ رہی ہیں کہ باغی گروہ عام شہریوں کیخلاف سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ مئی 2016 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ حلب کے قریب شیخ مقصود ضلع کے گردونواح میں مسلح جتھوں نے کسی امتیاز کے بغیر عام شہریوں کو نشانہ بنایا، گلی محلوں، بازاروں اور مساجد پر فائرنگ کی جس سے عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ تنظیم کے مطابق ان گروہوں نے انسانی زندگی کیلئے عدم احترام کی شرمناک مثال قائم کی۔
ریاست اسلامی کے جنگجوئوں کی مدد میں امریکی بمباری کے نتیجے میں مشرقی شام میں حکومت کی حامی افواج کے سپاہیوں سمیت چار روسی باشندوں کی ہلاکت کی خبر نے نیا فتنہ پیدا کر دیا ہے۔ شامی فوجی افسر کے مطابق سات اور آٹھ فروری کو ہونے والی لڑائی میں سو شامی سپاہی موت کے گھاٹ اترگئے۔ روسی شہریوں کی خبر کا بعدازاں سوشل میڈیا اور روسی خبررساں اداروں کے ذریعے انکشاف ہوا۔ حملہ تیل کی دولت سے مالا مال علاقے دیرالزور کے نواح میں بتایا جا رہا ہے۔ جہاں امریکی فضائیہ نے اتحادی کرد سپاہیوں کی مدد کے لئے بمباری کر دی۔ ترجمان امریکی فوج نے امریکہ اور روس کی افواج میں براہ راست لڑائی کے کسی بھی امکان کو مسترد کیا۔ کرنل ریان ایس ڈلّوں کے مطابق علاقہ میں اتحادی افواج کے ساتھ مڈ بھیڑ نہ کرنے کی روس نے یقین دہانی کرائی ہے۔
امریکہ روسی باشندوں کی ہلاکت کو روس میں حکومت مخالف جذبات کو ہوا دینے کیلئے استعمال کرنے کی بھی کوشش میں ہے۔ کریملن ترجمان دمتری ایس پیسکوو نے واضح کیا کہ حکومت اپنے فوجی اہلکاروں کی تعداد کا علم رکھتی ہے، اسے کسی غیر فوجی کی ہلاکت کے بارے میں تفصیلات کا علم نہیں۔ باضابطہ فوجی کے سوا کوئی روسی شام میں لڑ رہا ہے تو وہ کرائے کا قاتل ہے۔ 2014ء میں کریمیا اور مشرقی یوکرین کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رضاکار ہیں۔
امریکی کہتے ہیں کہ کرائے کے فوجی نہ صرف سستے ہیں بلکہ انکی ہلاکت پر ملک کے اندر شور بھی نہیں پڑتا جو حکومت کو دبائو میں لائے۔ شام میں روسی باشندوں کی ہلاکت کو امریکی میڈیا اچھال رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں روسی بزنس مین الیگزینڈر اینووف کا حوالہ دیاگیا جو شام میں سکیورٹی اور دیگر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اسکے اندازے میں اب تک دو سو روسی شام میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بعض دیگر ممالک سے آئے کرائے کے فوجی بھی شامل ہیں۔
روسی نیشنلسٹ پارٹی کے رکن الیگزینڈر ایورن نے تصدیق کی کہ ایک سال قبل شام جانیوالے انکی جماعت سے وابستہ کیرل اینانیو سات فروری کو دریائے فرات کے قریب امریکی اتحادیوں کی بمباری میں ہلاک ہوا۔ ولادی میر این لوگینووف کے بارے میں بتایاگیا کہ وہ بھی دیرالزور کے علاقہ میں اسی واقعہ میں جان سے گیا۔ لینن گراڈ میں بالٹک کوزیک یونین نے بیان میں کہاکہ ولادی میراین لوگینووف مادر وطن کے تحفظ کیلئے جارح پاگل جنگلیوں کیخلاف بہادری سے لڑتے ہوئے موت کی آغوش میں گیا۔وسط روس سے تعلق رکھنے والی خاتون لوباوا خوشیوا نے کہاکہ اسکے دوست ایگور کوسٹروف اور سٹینسلیو سات فروری کو شام میں ہلاک ہوئے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ انکی لاشیں لائی جائیں گی یا نہیں۔ ہلاک ہونیوالے افراد کے نام سب سے پہلے کانفلیکٹ انٹیلی جنس ٹیم منظر عام پر لائی تھی۔ یہ روسی تحقیقاتی بلاگرز کا ایک گروپ ہے جو اس قسم کی معلومات جمع کرنے کا کام کرتا ہے۔ روسی وزارت دفاع کیمطابق شام میں اسکا کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا اور یہ کہ جھڑپوں میں شامی حکومت کے حامی پچیس جنگجو زخمی ہوئے ہیں۔
دس فروری کو اسرائیل نے شام میں براہ راست فضائی حملے اور بمباری کرکے تنازعہ کو نئی سنگین شکل دے دی ہے۔ ایک اسرائیلی طیارہ بھی تباہ ہوا ہے جس میں سوار دونوں پائلٹ زخمی ہوئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ شام کے اندر سے ایک ایرانی ڈرون اسکی حدود میں داخل ہوا جس کا فوری احساس ہونے پر نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران شام کی حدود کے اندر سے اسرائیلی طیارے کو طیارہ شکن توپوں سے تباہ کیا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیل اپنے دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور یہ اس کا حق ہے۔
سرد جنگ اور کرائے کے قاتلوں کے ذریعے لڑی جانے والی یہ جنگ کب عملی لڑائی میں تبدیل ہوتی ہے، ان خدشات کی بنا پر تیسری عالمی جنگ کی تھیوری بھی پیش کی جا رہی ہے۔ دنیا کا امن جھول رہا ہے اور امن کے نام پر بڑی طاقتیں دہشت گرد گروہ بن کر انسانوں کا جینا اجیرن بنا رہی ہیں۔ امن قائم کرنے کی ذمہ داری جن پر ہو، وہ طاقتور خود ہی بدامنی پھیلانے لگیں تو فساد فی الارض اسی کو کہتے ہیں۔