امریکا میں متعین سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ عرب سرزمین صرف عربوں کی ملکیت ہے۔ وہ ایرانی صدر حسن روحانی کے بعض خلیجی ممالک پر تاریخی دعوﺅں کا جواب دے رہے تھے۔انھوں نے عربی زبان میں ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ایرانی نظام ہمارے خطے کے استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔وہ ابھی تک توسیع پسندانہ خوابوں کا حامل ہے۔ایران میں انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اس نظام کے صدر نے اپنی تقریر میں اپنے توسیع پسندانہ ارادوں کا اظہار کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ماضی میں خلیج عرب میں عرب سرزمین ان کے ملک کا حصہ رہی ہے۔انہوں نے اس علاقے کو جنوبی ایران کا نام دیا مگر عرب سرزمین تو عربوں کی ہے اور عربوں کے لیے ۔یمن اور وہاں عرب اتحاد کی فوجی کارروائی ایسی التباسی تقریروں سے کہیں زیادہ واضح اور کھل کر کہانی بیان کررہی ہے۔شہزادہ خالد نے ایک اور ٹویٹ میں ایرانی صدر حسن روحانی کے بیانیے کو خطرناک اور توسیع پسندانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ یہ نظام ابھی تک اعتدال پسند نہیں ہوا ہے۔وہ لکھتے ہیںکہ افسوس ناک امر یہ ہے اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ نظام دہشت گردی اور سخت گیر ملیشیاﺅں کی مالی معاونت کے لیے ایرانی قوم کی دولت لٹاتا رہے گا۔شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹر پر ناکامی کے 40 سال کے عنوان سے ہیش ٹیگ کے تحت ایران کی موجودہ مجموعی صورت حال کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 40 سال قبل آیت اللہ ( روح اللہ خمینی)ایران میں اترے تھے اور اس کے بعد دہشت گردی اور تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔انہوں نے ایران کی معیشت کا سعودی عرب کی معیشت سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1979 میں دونوں معیشتوں کا حجم ایک ایسا ہی یعنی برابر برابر تھا لیکن آج سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی)ایران سے دگنا ہوچکی ہے۔اس عرصے کے دوران میں سعودی عرب کی فی کس آمدن دس گنا سے بھی بڑھ چکی ہے جبکہ ایران کی فی کس آمدن نصف سے زیادہ کم ہوچکی ہے۔واضح رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر تہران میں منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بعض خلیجی عرب ممالک پر تاریخی دعوے داغ د یئے تھے لیکن انہوں نے ان ممالک کا نام نہیں لیا تھا۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھاکہ سیکڑوں سال قبل ایران کے ایک بڑے حصے کو الگ کردیا گیا تھا۔ان حصوں پر ، خلیج کے جنوب میں بہت سے ممالک قائم کردیے گئے تھے۔انھوں نے یہیں پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ عرب ممالک کے علاوہ وسط ایشیا کے تین ممالک پر بھی دعوے کردیے تھے اور کہا تھا کہ تین موجودہ ممالک آذر بائیجان ، آرمینیا اور جارجیا میں شامل بعض علاقے دراصل ایران کے ملکیتی تھے اور انھیں اس سے علیحدہ کرکے ان ریاستوں میں شامل کردیا گیا تھا۔mk/ah