پاکستان اورترکی کاہتھیار،فوجی سازوسامان ایک دوسرے سے خریدنے کاعزم

Feb 15, 2020

اسلام آباد / سہیل عبدالناصر/ پاکستان اور ترکی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دونوں ملک ، درکار ہتھیار اور فوجی سازوسامان، ہر ممکن حد تک ایک دوسرے سے خریدیں گے۔ رجب طیب اردگان کے دورہ پاکستان کی تکمیل پر جاری کئے گئے پاک ترک، مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک دفاع و سلامتی کے شعبوں میں مشترکہ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کریں گے، دفاعی پیداوار میں مشترکہ منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ عالمی اور علاقائی سطحوں پر، بالخصوص ایک دوسرے کے خطوں میں عدم پھیلائو، تحدید اسلحہ اور سٹریٹجک توازن کیلئے مل کر کام کیا جائے گا۔ انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اور مہمان صدر رجب طیب اردگان کے دستخطوں سے جاری اس مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے پانچ اگست 2019 کے اقدام نے خطہ میں کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ عالمی اور علاقائی امن کیلئے اس کشیدگی کو ختم کرایا جائے۔ مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ دونوں قائدین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات کو دو طرفہ ثمر مند ، سٹریٹجک شراکت میں تبدیل کیا جائے گا۔ دونوں قائدین نے کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے دیرینہ تنازعات حل کئے جائیں، غیر قانونی قبضے ختم کرائے جائیں،اور دہشت گردی کو کسی مذھب، قوم اور تہذیب کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ ان راہنمائوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا کی وجوہات کا تدارک کیا جائے۔اعلامیہ میں دونوں قائدین نے پاک ترکی، اعلیٰ سطح کی سٹریٹجک تعاون کونسل کے ذیلی گروپوں کی کارووائی کی بھی منظوری دی۔اعلامیہ کہا گیا ہے کہ اعلیٰ سطح کی سٹریٹجک تعاون کونسل ، باہمی تعلقات کے راہنماء اصول وضع کرنے کا اعلیٰ ترین فورم ہو گی۔ اعلامیہ میں رجب طیب اردگان کے امریکہ میں مقیم حریف فتح اللہ گولن کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے ان کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس تنظیم کے خلاف موثر مشترکہ کاروائی کی جائے گی۔ ترکی نے پاکستان کے اندر اس کارروائی پر شکریہ بھی ادا کیا۔ اعلامیہ کے ایک پیراگراف میں مسلہ کشمیر، افغانستان، سمیت اہم امور کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کے بارے میں کئے گئے یکطرفہ اقدامات، انسانی حقوق کی مزید خراب ہوتی صورتحال، اور مذکورہ اقدامات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورتحال نے خطہ میں تنائو میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مزیدخبریں