اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بیان پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہونا چاہئے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ مولانا فضل الرحمن کس کے اشارہ پر حکومت گرانے آئے تھے۔ ابھی تک کابینہ کے وزیر کی تجویز مجھ تک نہیں پہنچی۔ دیکھنا یہ ہے ہم مولانا فضل الرحمن کے بیان پر کیا کریں گے۔ جب ان سے بار بار پوچھا گیا کہ وہ کیا کریں گے تو انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ معیشت نے سر اٹھایا تو مولانا فضل الرحمان کا دھرنا آگیا جس نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں ’’کل کل‘‘ ختم کرنے کے لئے انتخابی اصلاحات لا رہے ہیں۔ نئے انتخابی قوانین لے کر آئیں گے۔ الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیو میٹرک سسٹم کو لازمی قرار دیں گے۔ سینٹ کے انتخابات میں کون کس کو ووٹ دے گا قوانین میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہیں ہوں گے اور ’’شو آف ہینڈز‘‘ سے سینٹ الیکشن کا قانون لائیں گے۔ ہم نے اپنے 20 ایم پی ایز کے خلاف کارروائی کی۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کریں گے۔ میں کرپٹ نہیں، جو کرپشن کرتے ہیں انہیں فوج کا ڈر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہماری مدد نہ کرتے تو پاکستان میں ڈالر 200 روپے کا ہوتا۔ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بات جمعہ کو وزیر اعظم ہائوس کے لان میں صحافیوں کے ایک گروپ سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں ہر جگہ کارٹیل ہے جو قیمتوں کو مرضی سے کنٹرول کرتا ہے۔ مسابقتی کمیشن اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسابقتی کمیشن کی چیئرپرسن کو ہٹانا چاہتے لیکن وہ حکم امتناعی لے کر بیٹھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف پر واضح کر دیا ہے موجودہ حالات میں بجلی کی قیمتیں مزید نہیں بڑھا سکتے۔ بجلی کی قیمت سے متعلق آئی ایم ایف سے معاملات طے پا جائیں گے۔ آئی ایم ایف کو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے سے متعلق بتادیا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آٹا بحران سے متعلق ابتدائی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں کرپٹ ہوں اور نہ ہی پیسے بنا رہا ہوں۔ دنیا میں سب سے کم پاکستان کے وزیراعظم کی تنخواہ ہے جو تنخواہ ہے اسی پر گزارا کر رہا ہوں۔ میں اپنا سارا خرچہ خود برداشت کرتا ہوں۔ ملٹری ایجنسیز کو معلوم ہوتا ہے کون کیا کررہا ہے۔ اس لئے فوج میرے ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت اور فوج میں کوئی تناؤ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے بیان کی تحقیقات ہونی چاہیے، معلوم ہونا چاہئے کہ کس نے انہیں یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن حکومت جانے کی باتیں صرف اپنی پارٹی کو اکٹھا کرنے کے لئے کرتی ہے۔ یہ سیاسی’’ مافیا ‘‘ ہے۔ ان کو مہنگائی کی نہیں اپنی ذات کی فکر ہے۔ پٹواری اور تھانیدار کی کرپشن سے اتنا مسلئہ نہیں ہوتا۔ اوپر کی کرپشن کے نیچے تک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا میرا میڈیا سے 40 سال کا تعلق ہے۔ مشرف کو میں نے مشورہ دیا تھا کہ ٹی وی چینلز کو کھولیں۔ ٹی وی چینلز سے سب سے زیادہ فائدہ میں نے اٹھایا۔ انہوں نے کہا ڈیڑھ سال سے میرے اوپر ذاتی حملے کئے گئے۔ کون سے جمہوری ملک میں وزیراعظم کو اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا میں اپنا سارا خرچہ خود برداشت کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا صرف معیشت کے حوالے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو دیکھتی ہے۔ ہم جب اقتدار میں آئے تو ساڑھے 19 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا۔ اگر کرنٹ اکائونٹ خسارہ زیادہ ہو تو حالات خراب رہتے ہیں۔ اقتصادی ترقی وہی اچھی ہوتی ہے جو برآمدات میں اضافے کی وجہ سے ہو۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے دور میں برآمدات 24 سے گھٹ کر 20ارب ڈالر پر آگئی تھیں۔ جبکہ تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ ماضی کی حکومتوں سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں ہمارے اوپر 40 ارب ڈالر کا بیرونی قرض تھا۔ جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے 10 برسوں میں 100 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے پہلے سال ہمیں 10 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا پڑا۔ اگر ہم پہلے سال 10 ارب ڈالر کا قرض واپس نہ کرتے تو دیوالیہ ہوجاتے۔ ایسی صورتحال میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 250 روپے تک پہنچ جاتا۔ اگر ہم دیوالیہ ہوجاتے تو آج مہنگائی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ ہمارے مخالفین ساری صورتحال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ ڈالر کی قدر سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لئے 20 ارب ڈالر مارکیٹ میں ڈالے جس سے صورتحال خراب ہوئی۔ ہمارے دور میں روپیہ 122 سے بڑھ کر 155 پر آیا۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی ہوئی اور ہر چیز پر اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے سال 75فیصد کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کیا اور پوری دنیا نے ہماری کارکردگی کو تسلیم کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آٹا بحران کی ابتدائی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام نہیں۔ آٹا، چینی گندم کی تحقیقاتی رپورٹ اعتراض لگا کر واپس کردی اور دوبارہ تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی۔ اپوزیشن کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ پہلے دن سے اپوزیشن شور مچارہی ہے اور ہمیں کامیاب نہیں دیکھنا چاہتی۔ اپوزیشن حکومت جانے کی باتیں صرف اپنی پارٹی کو اکٹھا کرنے کے لیے کرتی ہے۔ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ان کی دکان بند ہو جائے گی اور جیل چلے جائیں گے۔ یہ سیاسی مافیا ہے۔ ان کو مہنگائی کی نہیں اپنی ذات کی فکر ہے۔ عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی کے دور میں بجلی کے مہنگے کنٹریکٹ کیے گئے، آدھی قیمت پر گیس فراہم کی جارہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں سب سے بڑا چلینج ہے۔ فیصلہ کرلیا ہے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم گندم کے بحران پر برہم دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں کو منظر عام پر لایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت عدالت سمیت کسی بھی ادارے کے امور میں مداخلت نہیں کر رہی۔ کرپٹ لوگوں سے ریکوری کرنا ہمارا، عدالتوں اور احتساب کے اداروں کا کام ہے۔ عمران خان نے کہا کہ معاشی طور پر بدحالی میں گزشتہ دس سال کا بہت بڑا کردار ہے۔ زرداری اور نوازشریف کے دور میں ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) نے جتنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑے وہ دو ہفتے کے لئے تھے۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19.5 سے کم کرکے 2.5 ارب ڈالر تک لے آئے ہیں۔ ڈیفالٹ کر جاتے تو ڈالر 225 روپے کا ہوجاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں پرچی والا پارٹی سربراہ نہیں۔ 22 سال جدوجہد کر کے اس مقام پر پہنچا ہوں۔ مجھ سے زیادہ لڑنا کوئی نہیں جانتا۔ حکومت گرانے کی باتیں اس لئے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاسی دکان بند ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کی صفوں میں افراتفری موجود ہے۔ اپوزیشن حکومت جانے کی باتیں صرف اپنی پارٹی اکٹھا کرنے کے لیے کرتی ہے۔ یہ سیاسی مافیا ہے ان کو مہنگائی کی نہیں اپنی ذات کی فکر ہے۔ وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اتحادیوں کے تحفظات دور کردیئے ہیں۔ تحریک انصاف میں اختلافات پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں جس میں اختلاف نہ ہو۔ اپوزیشن جماعتوں کے اندر بھی اختلافات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ خفیہ اداروں کو نواز شریف اور زرداری کی کرپشن کا علم ہے۔ دونوں اسی لئے فوج کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کو فوج کی جانب سے مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ فوج بھی جانتی ہے کہ میں محنت کر رہا ہوں اور کرپشن نہیں۔ ماضی میں تعلقات ڈان لیکس، میمو گیٹ کی وجہ سے خراب ہوئے تھے۔ ماضی کے حکمران فوج سے ڈرتے تھے۔ کیونکہ ایم آئی، آئی ایس آئی کے پاس نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے ثبوت موجود تھے اس لئے تعلقات خراب ہوئے تھے۔ جبکہ سیاسی قیادت اداروں کا ٹکرائو چاہتی تھی۔ اگلے ہفتے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے ایمرجنسی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اتحادیوں کے خدشات دور کر دیئے گئے ہیں، اب انہیں ہم سے کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جس کے اندر اختلاف نہ ہو جبکہ ملک میں اپوزیشن جماعت جس کی قیادت ملک سے باہر ہے میں کتنے گروپ ہیں۔ جہاں پر سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں وہاں اختلافات بھی ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ بنانے کے حوالے سے کہا کہ میرا ارادہ تھا کہ اسحاق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کیا جائے لیکن اب اگر حکم امتناع آ چکا ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مہنگائی کے حوالے سے کہا کہ مجسٹریٹ نظام کو فوری اور پوری قوت سے بحال کرنے جا رہے ہیں۔ اگلے ہفتے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے ایمرجنسی اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھایا جائے گا۔ جبکہ ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں کے حوالے سے کہا کہ یہ ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ انہوں نے ایسے معاہدے کئے جو اب جلد ختم بھی نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت آئینی مدت پوری کرے گی۔ حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ وہ لوگ افراتفری پھیلا رہے ہیں جنہیں احتساب کا ڈر ہے۔ جبکہ ملک کا جتنا اچھا امیج آج ہے اتنا 40سال میں نہیں رہا۔ ہماری حکومت کا کام اداروں کو با صلاحیت بنانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ جبکہ سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف آج بھی تحقیقات کرانے کیلئے تیار ہوں۔