حامل گھات، امربیل اور راجہ گدھ جیسی شاہکار کتابوں کے مطالعہ کے بعد مجھے بانو آپا سے ملنے کا ہمیشہ سے اشتیاق رہا۔ فروری میں وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں اور ایک سال قبل فروری میں ہی میری ’’داستان سرائے‘‘ میں اُن سے ملاقات ہوئی نوے سال کی ایک معمر خاتون کچھ ہی دیر میں میرے سامنے موجود تھیں۔ اگرچہ وہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں۔ لیکن ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی جھریوں میں ماہ و سال کی وہ کہانیاں پوشیدہ تھیں جو زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں کے بہت قریب ہوتی ہیں اور انہوں نے جب جب یہ کہانیاں صفحہ قرطاس پر بکھیریں، زندگی کی بے ثباتی، عشقِ مجازی سے حقیقی تک کے سفر اور نجانے ذات کے اندر کتنے ایسے پہلوئوں کو اجاگر کرتی چلی گئیں کہ جن کی کڑی صوفی ازم سے جا ملتی ہے۔ حاملِ گھات زندگی کی اسی بے ثباتی کی کہانی اور اس ربوبیت کی طرف رجوع ہے کہ جس سے ذات کے سفر میں روشنی کی کرنیں اترتی چلی جاتی ہیں۔ راجہ گدھ میں حلال اور حرام کا ذکر کرتے ہوئے وہ خدا اور اس کے قوانین پرمضبوط گرفت کا لاشعوری طور پر تصور دیتی چلی جاتی ہیں۔ کسی کالم نگار نے لکھا تھا کہ ہر عورت کو زندگی میں ایک بار ضرور بانو آپا سے ملنا چاہئے۔ بانو قدسیہ سے باتوں کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرا ہاتھ تھامے فطرت، کائنات اور اس کے مظاہر کی تلاش میں جا نکلی ہوں بار بار انہوں نے مختلف حوالوں سے کائنات کے توازن کا ذکر کرتے ہوئے زندگی کے ہرمیدان میں چاہے انفرادی زندگی ہو یا معاشرتی توازن کو لازمی قرار دیا۔ بانو قدسیہ کے اندر کا صوفی میری ذات کی تلاش میں نہ صرف مددگار ثابت ہوا بلکہ میں نے اس کیفیت اور وجہ کو بھی محسوس کیا جو بلّھے شاہ اور میاں محمد بخش کے کلام کے بعد طاری ہوتا ہے۔ انہوں نے بارہا اپنی گفتگو میں اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب کا ذکر کیا۔ وہ کتنی دیر اُن کی باتیں کرتی رہیں۔ بانو قدسیہ نے ’’مردِ ابریشم‘‘ لکھ کر قدرت اللہ شہاب کو ایک روحانی زندگی عطا کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد روحانیت کے سفر پر رواں دواں تھے۔ ان کی تحریریں اس بات کی عکاس تھیں کہ ذات کی پاکیزگی روح کی پاکیزگی ہے اور صوفی ازم کا پہلا درجہ ہے۔ اس پرمزید کام ڈاکٹر سہیل احمد خان نے کیا کہ جنہوں نے داستانوں کی علامتی کائنات لکھ کر یہ اصول سمجھا دیا کہ اندر کی روشنی سے باہر کی دنیا کو روشن کیا جا سکتا ہے جبکہ منیر نیازی نے شاعری کے ذریعہ یہ وصف سمجھایا کہ زندگی کی کہانی تو اُس سات دروازوں کی مانند ہے جس سے روشنی کی شعاعیں براہِ راست ذات تک پہنچتی ہیں۔ بانو قدسیہ بھی اسی سفر پر گامزن تھیں۔ بانو قدسیہ نے مجھے اس انٹرویو میں بتایا کہ راجہ گدھ لکھتے ہوئے بارہا مجھے خیال آیا کہ کوئی طاقت مجھ سے لکھوا رہی ہے اس آمد اور ابہام کی وجہ بانو قدسیہ کے اندر وہ حساسیت تھی یا مشاہداتی قوت تھی کہ جو زندگی کے راز ہر صفحے پر کھول کر قاری کے لیے ایک نئی دنیا اور نئی حقیقت کا راز افشا کر رہی تھی۔ وہ بول رہی تھیں میں سُن رہی تھی۔ یکدم مجھے ایسا لگا کہ ’’گویا یہ بھی میرے دل میں تھا‘‘ ایک ادیب اس وقت معتبر ادیب بنتا ہے جب وہ لوگوں کے احساسات کو اُن کے اپنے انداز میں بیان کرے اور پڑھنے والے کو محسوس ہو کہ یہ اس کے اندر کی کہانی ہے۔ بانو قدسیہ کی کہانیاں اور ناول بھی قاری کو علامتوں کے جنگل میں تنہا نہیں چھوڑ تے اور اسے بھٹکنے نہیں دیتے۔ ان کی گفتگو کے بھی کئی پرت تھے۔ ایک طرف تو وہ یادیں تھیں جو ان کا سرمایہ تھیں۔ وہ بار بار گزرے ہوئے لوگوں کا ذکر کرتیں اور اُن کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ زندگی کے اُس سِرے کو مضبوطی سے تھامنے کی قائل تھیں کہ جس کی بنیادیں، فطرت ، قدرت ، نیکی اور سچائی سے جا ملتی ہیں اور تیسرے یہ کہ وہ انسانیت کی معراج میں انسان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتی تھیں کہ جہاں اس کا سِرا اور رابطہ خدا سے جڑا رہے۔ جہاں یہ سرا ہاتھ سے چھوٹا انسان انسانیت کے مقام سے گرا اور گدھ بن گیا۔ راجہ گدھ اُسی گدھ کی کہانی ہے۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن اُن کے ناول اور کہانیاں درحقیقت اُس راستگی کی پکار ہے جس پر چل کر انسان منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔
’’بانو قدسیہ کا صوفی ازم‘‘
Feb 15, 2020