ناقابل تردید حقیقت یہ لگتی ہے کہ بحر سیاست میں تہہ آب کچھ ہلچل ضرور ہے۔ تبھی تو ملک کی برسراقتدار سیاسی قیادت کی چھائوں میں دانہ دنکا چننے والے اپنے حقیقی فرائض کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف ایسے ہی راگ میں ہم آواز ہونے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں جس کا مقصد مسند اقتدار پر براجمان قیادت کی خوشنودی حاصل ہو اور ایوان اقتدار میں ان کا نام ایسے ارکان کی صف میں گنا جائے جن کی توپوں کے دھانے ارباب اختیار پر تنقید کرنے والوں کی طرف الفاظ کی گولہ باری میں مصروف ہوں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کرنے والی لاکھوں روپے ماہانہ کی آسائش زندگی کی مراعات ان سے عوام کے دکھ درد دور کرنے کی خاطر کن فرائض کی بجاآوری کا تقاضا کرتی ہیں۔ ملکی سیاسی فضا میں بعض شعبہ ہائے زندگی کی طرف سے پیدا کی گئی ہلچل سے پیدا شدہ عوامی بے چینی اور عملی طورپر پیدا ہونے والی مشکلات میں ان کے فرائض کیا ہیں؟ کسی سیاست میں خلفشار‘ نفسانفسی اور اقتدار کی رسہ کشی کے نتیجے میں اکھاڑ پچھاڑ کوئی نئی بات نہیں مگر تازہ ترین سیاسی ڈگر پر جا رہے ہیں‘ وہ چلن انوکھا اور نرالا ہے۔ ملک کا کوئی ایک قومی شعبہ بھی ایسا نہیں جسے بحرانوں سے واسطہ نہ ہو‘ ایسے ایسے بحرانوں جن سے ملک کے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہوں۔ متاثر کا لفظ اس حوالے سے استعمال کرنے کی بجائے لفظ مجروح استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ بحرانوں سے بری طرح مجروح عوام کو اچھے حالات کے لوٹانے یا لوٹ آنے کی ڈھارس بندھانے کیلئے خوراک‘ زراعت‘تعلیم‘ صحت‘ علاج‘ صنعت‘ روزگار‘ رہائش‘ پنشن‘ ٹرانسپورٹ‘ مزدوری‘ مزدوروں ی اجرت‘ اوقات کار کے تعین اور ان کی پابندی‘ انصاف‘ مظلوموں کی دادرسی سمیت کوئی بھی شعبہ‘ ادارہ یا ان کے حوالے سے عوام کو سہولتیں اور ان کی فراہمی کیلئے حکومت کی طرف سے تعینات ذمہ داروں کی کھیپ تو ہوگی مگر عوام سے متعلق ان کی ضروریات سے لاپروا۔
بحرانوں کی صلاحیتوں سے عاری‘ فرائض سے بجاآوری کی اہلیت کے ناقابل اور قومی و ملکی درد سے آشنا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو قوم کے تمام کے تمام شعبے شدید اور سنگین بحرانوں کا شکار نہ ہو چکے ہیں۔ کسی ایک شعبے کے معاملات سے عہدہ برا ہونے والے کا نام عوام کے نزدیک جانا پہچانا ہے نہ ان کا کام نظر آتا ہے۔ ایسے میں چودھری پرویزالٰہی نے جو کمیٹی ڈالی ہوئی ہے‘ وہ کب نکلے گی؟ یہ کمیٹی انہوں نے کہاں ڈالی تھی کس کو تھمائی تھی؟ اس سوال کا جواب وہی جانتے ہیں مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چودھری پرویزالٰہی نے اپنی جس کمیٹی کی طرف دو ٹوک الفاظ میں بات کی ہے‘ اس کمیٹی کے حوالے سے ’’کمٹمنٹ‘‘ کرنے والے ضرور سمجھ گئے ہونگے کہ کمیٹی ادا نہ ہونے کی صورت میں انہیں کن نتائج کو بھگتنا ہوگا اور اگر بحرانوں پر قابو پانے والی ٹیم پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی تو پھر بحر سیاست میں تہہ آب مدوجزر کے منظرعام پر آنے کے نتائج کسی صورت بھی ارباب اقتدار کے حق میں نہیں ہونگے۔
……………… (ختم شد)