ایک ہوں مسلم حرم کی پا سبانی کیلئے

پر سوں تر ک صدر ر جب اردو گا ن کا محبتو ں اور عقید توں سے لبریز استقبال ہو ا۔نور خان خان ائیر بیس سے وزیر اعظم عمران خان خو د گا ڑی چلا کر مہما نو ں کو اسلام آباد لا ئے وزیراعظم کا د لربا انداز پا کستانی قوم کی ترک عو ام سے محبت اور عشق کا مظہر تھا۔پارلیمنٹ کے مشتر کہ خطاب میں مہمان صدر نے جس قسم کے خیالات،عز ائم اور نیک خو اہشات کا اظہار کیا ان لمحوں کی پا کستان اور تر ک عوا م کو ضرورت تھی ۔حیر ت اس با ت پر ہے کہ مہمان صدر کی آ مد کے روز وقومی اسمبلی کے خصو صی سیشن میں وزیر مملکت انسداد شہر یار آ فر یدی نے مدر سے اور عا لم کے جواز پر نشہ کی تر سیل واستعما ل کا جو انکشاف کیا جس پر قو می اسمبلی میں علما ء کرام نے جو احتجاج کیا اس سے یہ سوال بد ستور مو جو د رہا ہے کہ اس طر ح افراتفری پیدا کر نے کے کیا مقصد ہے ؟ اتحاد اور رواداری کی جس فضا کی لمحہ مو جو د میں ضرورت تھی آ خر ہم ا س سے دور کیو ں ہو تے جا رہے ہیں ؟اب کچھ با تیں کشمیر اور کشمیر کا ز سے متعلق ہوجائیں…آ زادی سے آزادی تک کا سفر فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکا ہے ۔عشق و اہ کا دلگداز باب تھا ۔سینکڑوں روشن رہنا چہروں کی فصل کاٹی تھی تب کہیں جاکر دامن مہتاب میں چاندی کے پھول کھلے تھے اور جبین شب کی ظلمتوں میں نور پھیلا تھا۔درندگی اور بربریت کی انتہا کی گئی عصمتوں کی دھجیاں بکھیری گئیں۔لوٹے پٹے قافلے جب پاکستان پہنچے تو بہن بھائی سے بیوی شوہر سے ماں بیٹی سے یہ پکار پکار کے کہہ رہی تھی کہ اے زندگی کے سہارو!! تم کہاں ہو؟ تم کہاں ہو؟ مگر جوابی آوازیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھی اور وہ ماں جس کے جگر کا ایک ٹکڑا پاکستان میں آکر کا سہارا بننے والا تھا وہ ہندو اور سکھوں کی تلوار کے نیچے اپنے خون کا نذرانہ پاکستان کو پیش کرکے ابدی نیند سو چکا تھا ۔لاکھوں مسلمانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد یہ آ زاد وطن حا صل کیا۔ خواتین، بوڑھے اور معصوم بچوں کے خون سے وطن عزیز کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ آ خر تحریک آ زادی نے اپنے مقاصد کو طے کر کے ایک آ زاد ملک پاکستان تو حاصل کر لیا۔ مگر اس وطن کی شہ رگ جس کو دنیا کشمیر اور جنت نظیر وادی کے نام سے جانتی ہے جو ہمارے دشمن ملک بھارت کے قبضہ میں ہے۔جس میں ظلم و جبر اور خون سے لکھی جانے والی کہانی دہائیوں پہ مشتمل ہے۔ کشمیر ی مسلمان اپنے حق ارادیت کے لیے اپنی قیمتی جانوں نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ آ خر ایک دن اس ظلم کی سیاہ رات کے خاتمے کے بعد آ زادی کا سورج ضرور طلوع ہو گا۔ہمارے ایوانوں سے ہر دور میں آ واز بلند ہوتی ہے ہمارا اولین مشن اور مقصد آ زادی کشمیر ہے۔تقریروں اور تحریروں کی پرچار ہر سو نظر آ رہی ہے مگر آ ج بھی کشمیر ی عوام ہمارے منتظر ہیں۔بھارتی حکومت نے ایٹمی دھماکے کر کے یہ تاثر ظاہر کیا کہ شاید پاکستان دھماکوں کے خوف سے کشمیر کے مسلہ سے توجہ ہٹا لے گا۔مگر یہ بھارت کی کم عقلی تھی۔میاں نواز شریف نے اپنے دور میں 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرکے بھارت سمیت دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان ایک مستحکم خود مختار اور ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے ۔بھارت سرکار کا کوئی بھی دور آیا ہر رود میں کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہی ہوئیں ہیں۔ اور ظلم و جبر ہر دور میں بڑ ھتا ہی گیا۔مگر دنیا عالم خاموش تماشائی بن کر انسانیت کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کا ماتم دیکھتی رہی۔ سلامتی کونسل ہو یا اقوام متحدہ ہو کسی نے بھی مسلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ زور نہیں دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وادی کشمیر میں جن پر ظلم ہو رہا ہے ۔وہ انسان صرف اور صرف مسلمان ہیں جس کی وجہ سے دنیا اور دنیا کے ایوان خاموش ہیں۔ اس ظلم کا شکار کوئی اور قوم ہوتی تو دینا عالم کے ایوان تڑپ اٹھتے۔دنیا کو یہ بھی جان لینا چاہیے تھا کہ کشمیر کے مسلمان پہلے انسان ہیں اور پھر مسلمان ہیں۔انسانیت کے حقوق کی بات کرنے والوں کو یہ انسانیت کے حقوق کیوں نظر نہیں آ تے؟کشمیر میں ظلم و ستم کا سفر بھارت کے اقتدار پرستوں واج پائی ۔من موہن سنگھ کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا درندہ صفت مودی تک پہنچ آ یا مودی نے کشمیر کے مسلمانو ں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک اور برتاؤ کیا ہو ا ہے۔فروری 2019 کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے بہادر جوان پائیلٹ نے بھارت کا طیارہ گرا مارا۔ اور پاکستان نے امن کا پیغام دیتے ہوئے ان کا پائیلٹ ابھی نندن بھارت کے حوالے کیا اور واضع پیغام دیا کہ اگر اس طرح کی کوئی اور حرکت کی تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے گے مگر پھر مودی سرکار نے اقتدار کے نشے میں آ گست 2019 کو آ رٹیکل370 کا نفاذ کرتے ہوئے مکمل کرفیو لگا دیا۔اس تمام تر صورت حال پر عالمی برادری ابھی تک خاموش کیوں ہے؟ کیا سب کی انسانیت مر چکی ہے کیا ضمیر سو چکے ہیں سب کے انسانی حقوق کی تنظیمیں کب اپنا کردار ادا کریں گی۔عالمی دنیا کی بات ایک طرف مگر اس مسلہ کے حل کے لیے امت مسلمہ کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا ۔مسلم امت کو یکجا ہونا ہو گا۔بھارت مسلمانوں کے ضمیر کا امتحان لے رہا ہے۔کیا باقی دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم امت کا ضیمر بھی سو چکا ہے۔ آ خر کب تک ظلم و ستم کا بازار سجا رہے گا۔ آ ج ہم رنگ و نسل، خطہ اور فرقہ میں بٹ چکے ہیں حکومت پاکستان کو اس مسلہ کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ یوم یکجہتی کشمیر محض ایوانوں میں رسمی طور پر نا پیش کیا جائے بلکہ عہد کیا جائے اور کشمیر کی آزادی کی بنیاد رکھی جائے۔اس عہد وفا میں حکومت اپوزیشن تمام سیاسی جماعتوں کو افواج پاکستان کے ساتھ مل کر مسلہ کشمیر کے حقیقی حل کی طرف قدم بڑھنا ہوگا چاہیے اس کے لیے ہمیں آ خری حد تک ہی کیوں نہ جا نا پڑے ہمیں جانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تاریخ ساز خطاب کر کے دنیا انسانیت کے ضیمر کو آ واز دی اور بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا کا پردہ فاش کیا۔دنیا عالم کچھ کرتے ہوئے بھی کچھ نہ کر سکی اور نہ ہی کوئی مثبت حل نکل سکی۔ہمیں بس یہ عہد کرنا ہوگا کہ دنیا کچھ کرے نہ کرے ہیمں کشمیر کے لیے سب کچھ کرنا ہوگا۔ آج واضح پیغام بھارت کو جانا چاہیے کہ کشمیر کل بھی ہمارا تھا ، کشمیر آ ج بھی ہمارا ہے اور یہ دنیا کو جا ن لینا چاہیے کہ جہاں ظلم اپنی حدوں سے بڑھتا ہے وہاں عذاب الہٰی نازل ہو تا ہے ۔وہ وقت دور نہیں جب بھارت کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہو گا،کشمیر بنے گا پاکستان انشاء اللہ

ای پیپر دی نیشن