مسئلہ کشمیرحل کی کنجی افغانستان میں 

کل اتوارکا دن تھا اور مکمل آرام کرنے کی نیت کی تھی ،نمازفجر کے بعد ناشتہ اور اس کے بعد صرف نیٹ پر اخبارات کی ایک جھلک ہی دیکھنے کا ارادہ کرتے ہوئے نوائے وقت  دیکھاتو فرنٹ ہی پر کشمیر کے حوالے سے نئے امریکی صدر جو بائیڈن کے ترجمان کی خبر پر نظر پڑی  جس میں انہوں کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اورنئی امریکی حکومت آج بھی اسے ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیتی ہے جو حل طلب ہے ۔خبر تھی ہی ایسی کہ آج مکمل آرام کی نیت کے باوجود لکھنے کو من کیا کہ مسئلہ کشمیر کو ہم اہم ترین قومی ایشو سمجھتے ہیں۔ ہماری شروع سے کوشش رہی ہے کہ مسئلہ چاہے جو بھی ہو اس کے حل کی تجویز بھی کالم میں ساتھ ہی دے دی جائے تاکہ زمہ دارانہ صحافت کا حق ادا ہو جائے ۔اپنی اسی صحافتی زمہ داری کو نبھاتے ہوئے ہم نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے پچھلے سات آٹھ کالموں جو نوائے وقت ہی میں شائع ہوئے میں اس مسئلہ کا واحد حل کسی بھی عالمی فورم کی بجائے صرف اور صرف امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں بتایا تھا مگر اشاروں اشاروں میں جبکہ آج کے کالم میں اپنی اسی تجویز کو متعلقہ اداروں کی توجہ کیلئے زرا تفصیل سے اور کھل کر سامنے کئے دیتے ہیںتاکہ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کا ناممکن خاتمہ ممکن صورت اختیار کر جائے اور اب تک جو ہوا ، سو ہوا مگر مزید آگے نہ ہو اور کشمیری بھائیوں کو بھی سکھ کی زندگی میسر آجائے جس ہی کی خاطر وہ گذشتہ سات سے زائد دھائیوں سے جانوں کے نذرانے پیش تو کر رہے ہیںمگر سکھ کا سفید اجالہ اب بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہااور التجائیں وہ اقوام متحدہ سمیت دیگر تمام اداروں اور عالمی برادری سے کر رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں اِن مظلوموں کیلئے کچھ نہیں ۔     پوری دُنیا کے انتظامیہ امور اور اسرارو رموز پر نظردوڑائی جائے تو اس میں پوری دُنیا کے معاملات کا کنڑول امریکی ہاتھوں ہی میں دکھائی دے گا ،یہ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل ،سمیت تمام عالمی ادارے مثلاً یو نیسیف،ورلڈ فوڈ پروگرام غرض کہ ہر چیز اپنا ذاتی ایجنڈا تو رکھتے ہیں مگر اِن کے ایجنڈے کی منظوری امریکی سٹیبلیشمنٹ ہی دیتی ہے اور پھر یہ بھی کہ بڑی طاقتوں سمیت دُنیا کے دیگر جواہم ممالک ہیں وہ بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ ہی کے زیر اثر ہیں اور اِن ممالک کی اپنی اپنی اسٹیبلشمنٹ بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ ہی کے زیر اثر ہے سوائے پاکستان کے، کہ جس کے اثر سے اب یہ مکمل آزاد نظر آتی ہے اسی لئے اس بار حکومتی معاملات میں امریکی مداخلت جو اس سے پہلے ہر پاکستانی حکومت کے بناتے وقت اپنا اثر دکھاتی رہی بے اثر کر دی گئی جس کے لئے ہم اپنی اسٹیبلسمنٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ اب پاکستان امریکی سمیت کسی بھی غیر ملکی اثر و دباؤ سے نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنے فیصلے خود کرنے کی طاقت بھی اور اختیار بھی رکھتا ہے۔اسی لئے تو ہم مسئلہ کشمیر کے حل میں بھی پاکستان کو اپنا اثر و رسوخ اور خطے کے امن میں اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ واحد مسلم ایٹمی قوت کی طاقت کا اعزازرکھنے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی تجویز پیش کررہے ہیں ۔امریکی پریشنانیوںکو دیکھا جائے تو امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی افغانستان ہے جہاں وہ اس وقت بہت براُ پھنسا ہوا ہے او ر اس پریشانی سے بچنے کیلئے وہ ہر بار پاکستان ہی کی طرف دیکھتاہے افغان حکومت سے معاملات ہوں یا طالبان گروپوں سے بات چیت یا رعایت لینے کی بات ہو امریکی انتظامیہ پاکستانی حکام کو ہی مدد کیلئے پکارتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نے افغانستان معاملات کو حل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی مگر اس کے باوجود افغان امن مسئلہ ،مسئلہ کشمیر ہی طرح حل طلب ہے ۔سادہ سی بات ہے پاکستان امریکہ کے افغانستان سے متعلق مسائل حل کروا دے اور اس کے بدلے امریکہ سے کشمیر کا مسئلہ حل کرو ا لے ۔یہ درست ہے کہ ہماری یہ سادہ سی تجویز اتنی سادہ گی اورآسانی سے حل ہونے والی نہیں ہے مگر یہ بھی نہیں کہ یہ ناممکن ہے ۔وزیر اعظم عمرا ن خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی گذشتہ دور ہ امریکہ کی کوششوں سے اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی پر مجبور ہو گئے تھے تو مزید تھوڑی سے بات چیت سے بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے جوبائیڈ ن انتظامیہ سے افغانستان کے قیمت پر یہ مسئلہ حل کروانے کی راہ ہموار کروائی جاسکتی ہے جس نے تاہ ترین خبر کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل طلب تنازعہ قراردے دیا ہے ۔یہ بات کرتے ہوئے بھارت اور اسرائیل بھی زہن میں آئے جن کی سیاسی دکانداری چلتی ہی مسئلہ کشمیر کو طول دینے سے ہے مگر یہاں ہمیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی کارگل کے حوالے سے کامیابی کو بھی زہن میں رکھنا چاہیے جس کے بعد بھارت کی اُس وقت کی انتظامیہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے پر رضامند ہو گئی تھی مگر بعد میں یہ پیش رفت رک گئی تھی اب یہ تار بھی دوبارہ وہیں سے جوڑی جاسکتی ہے جہاں سے ٹوٹی تھی ۔ہماری نزدیک یہی ایک حل ہے مسئلہ کشمیر کا دوسرا اور کوئی نہیں ۔یہ اقوام متحدہ ،یہ سلامتی کونسل کی قراردادیں یہ عالمی برادری کی توجہ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں ان سے کچھ ہونے والا نہیں اگر اِن اداروں سے مسئلہ کشمیر حل ہونے والا ہوتا تو اب تک حل ہو چکا ہوتا ۔اوربہت پہلے ہو چکا ہوتا ،نہ اتنا خون خرابہ ہوتا نہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا نہ کشمیری بہوبیٹیوں کی عزتیںپائمال ہوتیں نہ پورا مقبوضہ کشمیر اوپن جیل کی صورت اخیتار کرتا جو اس وقت اختیار کر چکا ہے ۔یہ مسئلہ جتنا طول پکڑتا جارہا ہے بھارتی ہتھکنڈوں اورظلم و جبر میں اضافہ ہوتا جارہاہے بلکہ بات تو اب بہت آگے جاچکی ہے ،بھارت کیلئے تو یہ متنازعہ رہا ہی نہیں ،اُ س نے تو اسے اپنی ریاست کا حصہ تک بنا لیا ہے اور پتہ نہیں آگے چل کر مزید کیا گل کھلائے یہ بھارت ،اسی لئے بہتر یہی ہوگا کہ بھارتی گردن کو امریکی ہاتھوں سے ہی دبوچ لیا جائے بالکل اسی طرح جس طرح سابق صدر پرویزمشرف کے مطابق ہم نے کارگل میں بھارت کی گردن کو دبوچ لیا تھاجس کے بعد بھارت نے کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔

ای پیپر دی نیشن