داستانِ محبت میں کرب دَر کرب ہے اور اس کرب کی راہ کرب و بلا سے ، اس طور سے ملتی ہے کہ یہاں بھی محبت کے راہی قربان ہوئے۔ جبار مرزا کی یہ آپ بیتی حقیقت میں جگ بیتی ہے۔ یہ راہِ دارورسن ہے۔ یہاں دار پہ چڑھنا کچھ عجب نہیں۔ پہل کسی جانب سے بھی ہو سکتی ہے، محبت ہوتے دیر ہی کب لگتی ہے۔ یہ بھی کڑی حقیقت ہے کہ پہل کرنے میں جرات درکار ہوتی ہے۔ پہل کرنا قطعاََ آسان نہیں، بلاشبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ محبت روز کے ملن سے سابقہ نہیں رکھتی۔ یہ پل بھر میں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک پل، ایک خیال، ایک نظر، ایک ملاقات کی داستان ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا:
؎روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
محبت کے نگر میں ایک ساعت، ایک کیفیت، ایک نظارہ عمر بھر تعاقب کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے۔ اس میںتڑپ ہے، کسک ہے، شدت ہے، اضطراب ہے۔ جبار صاحب کی آپ بیتی کو صاحبانِ محبت نے ناکام محبت کی لازوال داستان کَہ کر امر کر دیا۔ اس لئے کہ محب اور محبوب کے جذبے صادق ہیں، سچے اور سُچے ہیں۔ ایک وارفتگی سی وارفتگی ہے۔ پہل جس طرف سے بھی ہوئی، محبت کے شعلے ہر دو جانب بھڑک رہے تھے۔ محبت دو طرفہ ہو تو عشق کا رُوپ دھار لیتی ہے۔زمانے کی مزاحمت نے اس محبت کو دوآتشہ کر دیا تھا۔ آپ بیتی کے مرکزی نسوانی کردار کو، جبار مرزا نے جھیل کہا ہے، جن میں ہوا سے بننے والے دائرے ماپتے مرزا صاحب نے عمر بِتا دی۔ انھوں نے دو مرکزی نسوانی کرداروں میں سے ایک کو یادوں کا سرمایہ جبکہ دوسرے کردار کو زندگی کا اثاثہ کہا ہے۔ان کرداروں کے ہاں، محبت میں خود کو وقف کرنے کا جذبہ تھا۔ محبت کے اس سفر میںاخلاقیات کی دیواریں بھی ایستادہ تھیں، جو حدِ فاصل ٹھہری تھیں۔مخالف ہوائوں کے پیش نظر صاحب کتاب نے کہا تھا:
؎میں نے اپنی روشنی کو دُور تک پھیلا دیا
جب سنا میں نے ہوا سے یہ دیا کچھ بھی نہیں
مرزا صاحب کی نثر دلآویز ہے۔ انھوں نے نثر میں بھی تشبیہات اور استعاروں کو برتا ہے۔ محب کی آنکھوں کو جھیل جیسا گہرا قرار دیا ہے اور غزالی آنکھوں کا تذکرہ وارفتگی کے ساتھ کیا ہے۔ پہل کسی اور نے کی تھی، اس لئے وہ محب، جبکہ جے مرزا بذات خود محبوب ہیں۔ عاشق ہونا، گویا ننگے پائوں کانٹوں پہ چلنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف میں بھی صوفیہ عاشق کے بجائے معشوق یا محبوب ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میری دانست میں، اس کارِ جہاں میں چاہنا یا چاہے جانا، ہر دو عمل نایاب ہیںجو سراسر توفیق سے ہیں، جن کا ہرگز کوئی نعم البدل نہیں۔ مرزا جی کے بقول محبت دو دِلوں کی برابری کا نام ہے جہاں اونچ نیچ کی سرحدیں معدوم ہو جاتی ہیں۔محبت کی اس داستان میں کیفیتِ انتظار ہے۔ خواب دَر خواب ہیںجو شرمندہء تعبیر نہ ہو سکے۔ تاہم! دنیا کے خواب اور خوابوں کی دنیا میں ایسے نشیب و فرازتواتر سے آتے ہیں مگر واصف علی واصفؒ کے بقول یہ جو حقیقت ہے، دراصل یہ ایک خواب ہے اور جو دراصل خواب ہے، وہی حقیقت ہے۔ محبت میں جس نے پہل کی تھی، اس نے بھی ایک سہانا خواب دیکھا تھا مگر زندگی کی تلخیوں اور ناہمواریوں کے سبب اس خواب نے ایک ڈرائونے خواب کا رُوپ دھار لیا تھا۔تاہم! خواب زادِ راہ ہوتے ہیں۔ ممتاز اطہر نے کہا تھا:
؎آنکھ میں کوئی خواب رکھ لیتے
کچھ تو رختِ سفر بھی ہوتا ہے
مرزا جی کی مذکور تصنیف میں شامل سبھی خطوط، اشعار، اقوال، تکرار اور مکالمے محبت کی داستان کَہ رہے ہیں، جن سے خاندانی ،عائلی ، معاشرتی جبر اور تشدد کی مثالیں اُبھر کر سامنے آ ئیں۔ نیز جہاں محبت خاندانی وجاہت، جلال، عظمت اور وقار کی بھینٹ چڑھ گئی۔ہر ایک خط کا متن، مکالمہ، شعر، مصرع، لفظ اور حرف حرف اپنی کہانی آپ کَہ رہا ہے۔ مذکور پہلوئوں کے امتزاج سے آپ بیتی کا رنگ چوکھا ہو گیا ہے۔ خطوط کے عکس اور ان کی پیش کش اپنی مثال آپ ہے جن میں شائستگی سی شائستگی ہے۔ مرزا جی کی یہ داستانِ محبت خونچکاں ہے۔ ہر شے خون میں لت پت ہے۔ زمانہ بری طرح سے حائل ہے۔بہ قول باقی صدیقی:
؎دِلوں میں فاصلہ اتنا نہیں ہے
زمانہ درمیاں آیا ہوا ہے
مرزا جی کے مرکزی نسوانی کردار نے کہا کہ میں چاہتی ہوں، ہم مرنے کے بعد زندہ رہ جائیں جبکہ جبار جی کا مکالمہ یوں تھا: ’’مرزا کے پاس دولت، جاہ و جلال نہ سہی مگر نئی کائنات کا تصور تھا، یادیں تھیں، ان گنت خواب تھے، محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، محبت کو پا لینے کا تعین تھا، قوموں میں انقلاب برپا کرنے والا قلم تھا، ذہنوں کو جلا بخشنے والی شاعری تھی، ناممکن کو ممکن بنانے ولا جذبہ تھا‘‘۔ جب پس منظر اور پیش منظر مذکور ولولے سے مزین ہو تو نیت، محبت اور عشق کو امر ہوتے دیر نہیں لگتی۔ تاہم! معاشرے میں عورت کی بے بسی کے نقوش کھل کر ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ نقوش حسرتوں کے قتل ہونے کے شاہد ہیں۔
آپ بیتی میں طرح طرح کی معلومات اور اشاریے ہیں۔ ادبی تقریبات اور ادبی رفاقتوں کا احوال ہے، جید شعرا کا نمونہ ء کلام ہے۔ اردو، فارسی اور پنجابی اشعار کا امتزاج ہے۔ راول دیس کی ادبی روایت مذکور ہے ، سانحہ مشرقی پاکستان کا بیان ہے۔ کہیں معاشرے کا جبرو تشدد اور کہیں صحافتی زندگی کی روداد ہے۔ مرزا جی نے محبت کی یہ روداد لکھ کر آپ بیتی کے مرکزی کردار کو خراج تحسین پیش کیا ہے جسے کردار کی بلندی اور خاندانی عزت کا پاس تھا۔ نیز جس نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کے پائوں میں ہرگز لغزش نہ آئی۔ مرزا جی کے مطابق محبت ہار گئی لیکن میرے تئیں محبت کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔ وہ ہار کر بھی جیت جاتی ہے۔ اس کی ہار ، جیت کا فیصلہ ظاہری اسباب اور نتائج پر ہرگزنہیں کیا جاتا۔ اگر کسی کے نام پہ دھڑکنیں تیز دھڑکنے لگ جائیں تو جانیے! محبت امر ہو گئی۔ تاہم! جبار مرزا نے آنسو باطن میں انڈیل لیے، بلا کا ضبط کیا۔ مصطفی زیدی نے کہا تھا:
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پہ کوئی الزام نہ آیا