انسانی المیے کا سال۔سرور نقشبندی کاتبصرہ

میں چاہتا تھا کہ سال گزشتہ کے احوال لکھوں۔اپنے فون  میں وائس نوٹس بھی محفوظ کر رکھے تھے ۔مگر ابھی ذہن اس طرف لکھنے کو مائل نہیں ہو سکا۔نیٹ پر ایسے ہی خیالات کا اظہار میرے ہمسائے، ممتاز نعت گو اور نعت خواں اور مدحت کے چیف ایڈیر سرور حسین نقشبندی نے کیا ،میںنے یہ جانا کہ گویا یہ تو میرے دل میں تھا والی کیفیت محسوس ہوئی۔ ان سطور کو میں انہی کی زبانی پیش کر رہا ہوں۔
سال2020ء نے بلا شبہ انسانیت کو جھنجھوڑ بلکہ نچوڑ کر رکھ دیا۔اسے اس صدی کے جدید علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر نازاں دنیاکے لئے بحیثیت  مجموعی المیے کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وبائیں،بلائیں، آفات ،مصیبتیں، مشکلات ہمیشہ آتی رہتی ہیں لیکن ایسا شاید پہلی بار ہوا کہ اس کرہ ارض پر بسنے والا ہر انسان اس کی لپیٹ میں ایک ساتھ ہی آیا۔یہ کسی خاص خطے،ملک،قوم اور علاقے یا مذہب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ سانس لیتے ہوئے ہر شخص نے اس کے اثرات کو محسوس کیا۔ قوموں پر مختلف نوعیت کے حادثات گزرتے رہتے ہیں جس پر دوسرے لوگ اظہار افسوس بھی کرتے ہیں،ان کی امداد بھی کرتے ہیں لیکن اس بار تو کوئی ایسا نہیں تھا جس نے  مدد کے لئے ہاتھ بلند نہ کئے ہوں۔ فراٹے بھرتی ہوئی انسانیت جامد و ساکت ہو کے رہ گئی،فضائوں میں اڑان بھرتے ان گنت جہازوں کے پہیئے زمین نے جکڑ کے رکھ دئیے، سمندروں کو چیرتے ہوئے بلند قامت بحری بیڑوں کو ساحلوں کی مضبوط زنجیروں سے باندھ دیا گیا، زمینی راستوں پہ دوڑتی پھرتی  لاتعدادگاڑیوں کو گیراجوں میں بند کر دیا گیا اور  انسانوں کے ہجوم حجرہ نشین ہو کے رہ گئے۔
اس نظر نہ آنے والے جرثومے کے ہاتھ دنیا کی طاقتور ترین قوموں کے حکمرانوں کے گریبان تک بھی پہنچے اوروہ اس کے سامنے  بے بس  و لاچار دکھائی دئیے۔میڈیکل سائنس،جدید ٹیکنالوجی،علوم و فنون کے تعمیر کئے گئے فلک شگاف مینار زمین بوس  ہو کے رہ گئے۔بے پردگی کو انسانی آزادی کانام دینے والے بھی چہرے  اور جسم ڈھانپنے پر مجبور ہو گئے۔قدم قدم اختلاط و بغلگیر ہونے والے بھی سماجی فاصلے کا راگ الاپتے دکھائی دئیے۔ ہنستی کھیلتی بستیوں کو ا طاقت کے زور پر کرفیو سے بند کرنے والوں کو لاک ڈاؤن میں خود اس کی اذیت کو براہ راست محسوس کرنے کا موقع ملا۔ اس سال میں پیش آنے والی صورتحال کو ہم خاص طور پہ عالم اسلام اور پھر وطن عزیز کو درپیش صورتحال کے تناظر  میں  دیکھیں تو سب سے بڑا دکھ ہماری  عبادت گاہوں اورحرم پاک کا بند ہونا تھا جوابھی تک  اپنی اصل حالت میں بحال نہیں ہو سکا۔ہماری شفائوں اور دعاؤں کے مراکز  کی عملی طور پرمکمل بندش نے ہمارے ایمان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا  اور ان مراکز کی کسی وبائی مرض کی وجہ سے اتنے طویل عرصے تک بند رہنے کی غالبا ً یہ پہلی مثال تھی۔اس دوران رمضان المبارک کا وہ مہینہ بھی گزر گیا جس میں کائنات کا سب سے بڑا دسترخوان  رحمت عالمؐ کے روضہ اقدس پہ سجتا تھا جس پر بیٹھنے کے شرف سے سرفراز ہونے کیلئے دنیا بھر سے اہل ایمان کے قافلے  کھنچے چلے آتے ہیں۔ مسلمانوں کے عظیم الشان  اور پرشکوہ اجتماع حج کا زمانہ بھی  اسی کی نذر ہو گیا۔المیہ یہ ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے  اسلامی دنیا کو مل بیٹھ کر کوئی مربوط اور مضبوط لائحہ عمل  طے کرکے اس کی شان و شکوہ کو کسی صورت اور کسی حد تک قائم وہ دائم رکھنے کی ضرورت تھی لیکن اسے ضروری نہیں سمجھا  گیا۔ افسوس کہ نہ تو حرمین شریفین کے منتظمین اور نہ ہی پوری اسلامی دنیا سے اس اہم ترین مسئلے پر کوئی آواز اٹھائی گئی جو اہل ایمان کے لئے اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ا س وبائی مرض سے 81 کروڑ انسان متاثر ہوئے اور 81لاکھ کے قریب  ہلاکتیں اب تک  ریکارڈ کی  جا چکی ہیں۔ہمارے دین، ادب اور نعت سے وابستہ  نمائندہ شخصیات بھی اسی وبا کے دوران  ہم سے بچھڑ گئیں جن میں عشق رسول کی گرمی سے دلوں کو ولولے دینے والے علامہ خادم حسین رضوی،ممتاز نعت نگاراعجاز رحمانی،جدید لہجے کے خوبصورت شاعر اور عزیز دوست عمران نقوی،ادب پرور جواں سال  شاعر ڈاکٹر ذوالفقار دانش، حمد و نعت کا معتبر حوالہ خورشید بیگ میلسوی، علم وادب کا روشن چراغ  ڈاکٹر انوار احمد زئی،نعت خوانوں میں  فرزند اعظم چشتی ارشاد اعظم چشتی، محبوب ثنا خواںمحبوب ہمدانی، نوجوان شرافت حسین قادری،میاں تنویر قندھاری، خدمت گزار نعت گو بابا محمد یوسف ورک اورہر دلعزیز  درویش صفت قاری قرآن قاری کرامت علی نعیمی بھی  اس سال اپنے مالک کے حضور حاضر ہو گئے۔اس سال نے جاتے جاتے بھی اردو ادب کے لازوال محقق نقاد اور دانشور ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کو بھی ہمراہ  لے لیا۔ اس سارے نوحے کے بعد ہماری نظر اس صورتحال کے ان پہلوؤں پر بھی ہونی چاہئے جس میں کہیں  نہ کہیں روشنی کی کرن پھوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔یعنی اس دوران خدا کی بنائی خوبصورت زمین کو کچھ دیر سانس لینے کا موقع ملا، آسمان کو جہازوں کی اڑان سے آلودہ کر دینے والی فضا بھی صاف و شفاف نظر آنے لگی،سمندری مخلوق کو بھی انسانی مشینوں کے شور اور دھوئیں سے نجات ملی،مصنوعی ترقی پر اترانے والے انسان کو اپنی اوقات اور بے بسی کا ادراک ہوا۔رشتوں کو ایک دوسرے کے قریب بیٹھ کر ان کو جاننے کا وقت ملا اور سب سے بڑھ کر ہمارے اندر خود اپنے ہونے کا احساس اجاگر ہوا۔ہم لوگ مادیت پرستی کے اس طوفان میں اپنے خالق و مالک سے دور ہوئے،ایک دوسرے سے دور ہوئے اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ سے بھی دور ہوئے۔ اس وقت نے ہمیں ان سب کے قریب ہونے کا موقع فراہم کیا کہ ہم اب نئے سرے سے اپنی زندگی کے روز و شب کا جائزہ لیں اور اس زحمت کو رحمت میں بدلنے کا سامان کرنے کی کوشش کریں۔قدرت  نے اپنی طاقت کی جھلک دکھائی ہے اس کو جان کر اس کی طرف لوٹ جانے کا اہتمام کریں۔اللہ کرے کہ نیا  سال پوری انسانیت کے لئے پیغام  امن و عافیت بنے آمین 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن