ڈیرہ غازی خان میں لا ء اینڈ آرڈر کی صورتحال کافی بہتر اور محفوظ ضلع تصور کیا جاتا تھا جہاں رات کے اندھیرے میں تحفظ کا احساس ہوتا تھا مگر اب خود کو بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ کسی معاشرے کا تجزیہ کرنا ہو تو وہاں پر موجود جرائم کا تجزیہ کریں۔ ڈیرہ غازی خان میں کچھ عرصہ سے جرائم کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جرائم کے حوالے سے بظاہر قوانین موجود ہیں۔ اگر ہم ضلع ڈیرہ غازی خان کا تاریخی جائزہ لیں تو یہاں بسنے والے افراد کی زندگیاں سادہ اور زمین کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔شہری رات کو چین کی نیند سوتے کہ ان کے جان و مال کی حفاظت کیلئے پولیس ہردم چوکس رہتی مگر اب امن و امان کی صورتحال خراب، قتل و غارت گردی ،ڈکیتیوں، چوریوں کی بڑھتی ہوئی واردتوں و دیگر سنگین جرائم میں اضافہ نے شہریوں کی زندگیاں ابتر بنا رکھی ہیں۔پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جرائم پر قابو پانے اور لوگوں کی زندگیوں اور جان و مال کی حفاظت کیلئے عملاً کوئی مؤثر اقدامات نظرنہیں آرہے محکمہ پولیس کو تمام سہولیات حاصل ہونے کے باوجود اس محکمہ کی کارکردگی مایوس کن اور پولیس کی رٹ میں کمی آئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع ڈیرہ غازیخان میں قتل ،ڈکیتی،رہزنی اور اجتماعی زیادتی کے 4 فیصد مقدمات درج ہوئے ہیں یہ وہ تعداد ہے جن کے مقدمات درج ہوئے ہیں اور اصل تعداد کہیں زیادہ ہے ۔ تھانوں میں مقدمات کا اندراج جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بہت کم مقدمات کا اندراج کیا جاتا ہے ۔ پولیس آئے روز پریس کانفرنسوں اور میڈیا سے گفتگو میں ڈاکوؤں کو پکڑنے کے دعوے تو کرتی ہے مگر نجانے کیوں جرائم کے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا؟
ڈیرہ غازیخان میں کئی گینگ پنپتے رہے اور اب یہ اتنے طاقتور ہوگئے کہ پولیس کی رٹ کو چیلنج کرنے لگے ہیں۔ مشہور زمانہ لادی گینگ سرفہرست ہے جن کی کاروائیوں سے کئی شہری ناصرف اپنی جانیں گنوا بیٹھے بلکہ اپنے مال و مطع سے بھی محروم ہوگئے ۔ لادی گینگ کا سرغنہ خدا بخش عرف خدی چاکرانی مارا گیا مگر گینگ کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا اوراب بھی یہ گینگ سرگرم عمل ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازیخان میں منشیات کی سمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہے۔ شہر اور دیہاتوں میں منشیات کیروز بروز بڑھتے استعمال سے نوجوان نسل تباہ و برباد ہورہی ہے پولیس صرف خانہ پری کرتی ہے ۔ ڈیرہ غازیخان کی سرحدیں صوبہ بلوچستان سے ملتی ہے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی سمگلنگ سے جہاں پر حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتاہے ویاں پر محکمہ پولیس اور بارڈر ملٹری پولیس کے گٹھ جوڑ سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو گزارنے میں بھی فعال کردار ادا کرتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق رات کی تاریکی میں روزانہ کی بنیاد پر 10 سے 15 گاڑیاں پولیس کے شیر دل جوان پائلٹ کرتے ہوئے انہیں منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ یہ دھندہ سخی سرور چیک پوسٹ،پل بائیس ہزار ،تھانہ صدر کوٹ ادو اور چوک سرور شہید تک کافی عرصہ سے جاری ہے۔ اس کو روکنے کی بجائے اس سے حاصل ہونے والی لاکھوں روپے کی آمدنی پولیس کانسٹیبل سے لیکر اعلی افسران تک پہنچتی ہے۔پولیس اصطلاحات اور تھانہ کلچر کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے کسی بھی ادارے کو جب تک بااختیار نہیں بنائیں گے وہ کبھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔ روایتی تھانہ کلچر کے قیام کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے ۔کسی بھی تھانے میں ایس ایچ او کی تعیناتی سے پہلے اس کی ذہنی کردار سازی ضروری ہے ۔ جس طرح پاک فوج کے جوانوں میں حب الوطنی کا جذبہ سرایت کرجانے کی تربیت دی جاتی ہے اسی طرز پر محکمہ پولیس کے اہلکاروں کی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔