زبان و بیان اور کردار و عمل کے تضادات

Feb 15, 2022

امریکہ کے ساتھ تعلقات اور افغان جنگ میں اس کے فرنٹ لائین اتحادی کا کردار بسر و چشم قبول کر کے ادا کرنے کے معاملہ میں دل لبھانے والی باتیں وزیر اعظم عمران خاں اب تو نہیں کر رہے بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں نیٹو جنگی جہازوں کے ہماری سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نیٹو سپلائی رکوانے کے لیے دو روز تک ایک طویل جلوس کی قیادت کر کے بھی پاکستان کی امریکی پالیسی کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ملکی سلامتی اور قومی خودداری و خودمختاری کو بٹہ لگانے والی مشرف آمریت کی اس پالیسی کی بنیاد پر ہی امریکہ کو ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو افغان دھرتی ہی طرح اکھاڑنے ، اجاڑنے اور معصوم و بے گناہ پاکستانی باشندوں کے خون سے رنگین کرنے کی سہولت ملی تھی اور طرفہ تماشہ یہ کہ یہ سہولت بھی امریکہ نے پاکستان کے چار ائر بیسز اپنی دسترس میں آنے کے بعد پاکستان کے اندر ہی سے اڑان بھر کے پاکستانیوں کا خونِ ناحق بہانے کے لیے استعمال کی، پاکستان نے امریکی فرنٹ لائین اتحادی بن کر اپنی ہی گردن امریکی نیٹو فورسز کے حوالے کر دی اور اپنی ہی دھرتی کو امریکی جنگ کا مورچہ بنا دیا۔ پاکستان کے ائر بیسز سے ہی امریکی جنگی جہاز اڑان بھر کر افغانستان میں داخل ہوتے اور وہاں ہسپتالوں، مدارس، مارکیٹوں، شہری آبادیوں اور دوسرے پبلک مقامات پر بے دریغ بمباری کر کے افغان گوریلا مزاحمت کاروں سے زیادہ عام بے گناہ انسانوں کا خون بہاتے۔ انہی سفاک امریکی کارروائیوں کے باعث افغانستان کا ’’تورا بورا‘‘ بنانے کی اصطلاح ایجاد ہوئی تھی جو آج بھی بطور ضرب المثل استعمال کی جاتی ہے۔ 
بے شک ہمارے اس کردار کے ردعمل میں ہی طالبان انتہاء پسندوں نے پاکستان کی جانب رخ کیا اور یہاں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کے ذریعے پاکستان کے اہم مقامات بشمول سکیورٹی فورسز کے دفاتر، سکولوں اور ائر بیسز تک کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا جس میں زیادہ تر عام پاکستانیوں کا خونِ ناحق بہا جبکہ سیکورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کے ساتھ ساتھ ہماری کئی سیاسی شخصیات کی قیمتی جانیں بھی پاکستان کے فرنٹ لائین اتحادی کے کردار کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اس وقت عمران خاں صاحب بطور اپوزیشن لیڈر پاکستان کے فرنٹ لائین اتحادی والے کردار کو کڑی تنقید کانشانہ بناتے اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کردار کی بنیاد رکھنے والی پاکستان کی قومی خارجہ پالیسی کو یک قلم چاک کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے جس کے باعث انہیں بیرونی دنیا کی جانب سے عرفِ عام والا طالبان خاں کا لقب حاصل ہوا۔ سلالہ چیک پوسٹوں پر امریکی حملوں (جن میں پاک فوج کے دو درجن جوان شہید ہوئے) کے خلاف وزیرستان میں شروع کئے گئے عمران خاں کے احتجاج میں بھی زیادہ تر طالبان کے حامی قبائلی عوام نے ہی شرکت کی تھی۔ یہ جلوس مسلسل دو روز تک افغانستان کی جانب بڑھتے ہوئے جاری رہا اور بالآخر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنی کابینہ اور مشترکہ پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس منعقد کر کے مذمتی قرارداد کے ذریعے امریکی حملے کی سخت مذمت کرنا اور امریکہ سے اپنے ائر بیسز واپس لینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ 
یہ عقدہ تو بعدازاں عمران خاں کے موجودہ دور حکومت میں ہی کھلا کہ ان کے امریکہ کے ساتھ بدستور تعاون جاری رکھنے کے معاملہ میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کا نعرہ لگانے کے باوجود پاکستان کے ائر بیسز امریکہ ہی کے کنٹرول میں ہیں اور پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کے لیے بھی انہی ائر بیسز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بے شک اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائیٹ ہائوس میں وزیر اعظم عمران خاں کا ریڈ کارپٹڈ استقبال کیا جس کے دنیا بھر میں چرچے ہوئے مگر عمران خاں کی وزارت عظمیٰ ہی کے دورمیں ٹرمپ پاکستان کے کٹر دشمن مودی کے جلو میں نئی دہلی کی جلسہ گاہ میں ان کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے ہوئے پہنچے اور انہیں پاکستان کے خلاف ان کے توسیع پسندانہ عزائم پر تھپکی دی۔ 
امریکہ کے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں پر بے شک مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے آخری ایام میں اسے ’’نومور‘‘ کے پیغام ملنا شروع ہو گئے تھے جو نگران حکومت کی جانب سے شد و مد کے ساتھ منظرعام پر آنا شروع ہوئے اور پھر امریکہ کے لیے یہ پیغامات پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی کا حصہ بن گئے مگر امریکی فرنٹ لائین اتحادی کے کردار والی ہماری پالیسی سے پھر بھی رجوع نہ کیا گیا جس کا ثبوت پاکستان کے ائربیسز پر امریکی کنٹرول برقرار رکھنا تھا۔ جناب! پاکستان کے اس کردار نے ہی امریکہ کو افغانستان سے محفوظ واپسی کی سہولت فراہم کی ورنہ تو طالبان افغان دھرتی کو امریکی فوجیوں اور اس کے دوسرے شہریوں کے قبرستان میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ ’’طالبان خاں‘‘ کو تو اپنی حکومت کی پالیسی اسی نہج پر ڈھالنی چاہئے تھی اور ان کے اقتدار میں پاکستان کے امریکی فرنٹ لائین اتحادی والے کردار کا کوئی شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے تھا۔
اگر امریکی فرنٹ لائین اتحادی والا کردار آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے اور امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ ہمارے اس کردار کے ناطے سے ہی ہمارے خلوص کی پوچھ پڑتال کر رہی ہے جس میں کسی کمی کو محسوس کرکے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ والی تلوار پاکستان کے سر پر لٹکائے رکھنے کی پالیسی چل رہی ہے تو جناب! پاکستان کی امریکی پالیسی کے خلاف وزیراعظم عمران خان کے دل لبھانے والے بیانات کردار و عمل کے تضادات کا مجموعہ نظر نہیں آتے؟ یقینا افغان دھرتی پر شروع کی گئی امریکی جنگ نے ہی اس خطے بالخصوص پاکستان میں دہشت گردوں کو جنم دیا ہے اور یقینا واشنگٹن کی پالیسیوں کا خمیازہ بطور فرنٹ لائین اتحادی ہم ہی بھگت رہے ہیں جبکہ ہمارے ساتھ اس کی طوطا چشمی بھی اسی طرح جاری ہے تو جناب وزیراعظم وسعتِ قلبی کے ساتھ قوم کو اپنی حکومت کے ان عملی اقدامات کی جھلک بھی دکھا دیں جو امریکہ کے ساتھ پاکستان کی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔
ان کے ایسے بلندوبانگ دعوے تو بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ بھارت نے پانچ اگست 2019ء کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی ترامیم یکایک حذف کرا کے اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر کو عملاً بھارت میں ضم کیا تو وزیراعظم عمران خاں اس وقت بھی بپھرے کشمیری عوام کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے کنٹرول لائین عبور کرنے کے واضح اشارے دے رہے تھے اور بھارت سرکار کو للکار رہے تھے کہ ہم یہ لائین عبور کرکے بھارت میں داخل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ فلاں وقت تک اپنا پانچ اگست کا فیصلہ واپس لے لیں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا آبرومندانہ حل نکال لیں ورنہ ڈیڈ لائین ختم ہو گی تو کُل کائنات دیکھے گی کہ ہمارے ہاتھوں بھارت کی کیا درگت بنی ہے۔
ارے جناب! اس اعلان دلپذیر اور اس کے تحت مقرر کی گئی ڈیڈلائین کو آج دوسال سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے۔ قوم منتظر ہے کہ وزیراعظم صاحب کشمیریوں کے بپھرے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اب کنٹرول لائن عملاً عبور کر جائیں گے مگر اس معاملہ پر ایسی مٹی پڑی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں عملاً سانپ کے سونگھنے والا ماحول بنا نظر آتا ہے۔ اب اور کیاکیا یاد دلائیں۔ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کے دعوے تو پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں خاکستر ہو گئے۔ قوم بھوکوں مر رہی ہے مگر حکومت کی آئی ایم ایف پالیسی اپنے جوبن پر ہے جس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ایسے ’’سرشاری‘‘ والے ماحول میں امریکی جنگ سے ہونے والے اپنے نقصانات پر پچھتاتے ہوئے اپنے فرنٹ لائین اتحادی والے کردار سے رجوع کرنے کا سوچنا؟۔ حضور۔ توبہ توبہ خدا خدا کیجئے۔

مزیدخبریں