دعوتِ جگ ہنسائی

رنگیلا شاہ کی حکومت آج بھی تضحیک اور ذلت کا نشان سمجھی جاتی ہے کیونکہ یہ حکمران جہاں عیاش طبع تھا وہاں اس میں علم عقل شعور اور ذہانت کا شدید فقدان تھا۔جب حاکم سنجیدہ، عقلمند، ذہین، با شعور اور با خبر نہ ہو تو اُس کی حکومت چلتی نہیں بلکہ اُسے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی حکومت کی کامیابی ، ترقی اور استحکام کی بنیاد کے لیے اُسکے حاکم کا ذی شعور، صاحب علم و فراست، سنجیدہ متین باوقار اور دانشمند ہونا لازم ہے۔ حکمران کو سنجیدہ مزاج، سُلجھا ہوا ، باوقار، دوراندیش اور کم آمیز، حکمت پرور ہونا چاہیے۔ اُس کے اقدامات، فیصلے اور کاروائیاں اُس کی حکمرانی کی مدت کا تعین کرتی ہیں۔ وزارتِ اعظمیٰ خوبصورت یا ہینڈسم ہونے سے نہیں چلائی جاتی۔وزارتِ اعظمیٰ کے لیے ذہانت و فراست کی ضرورت ہو تی ہے۔ علم و فضل، تدبر، تحمل اور دانشمندانہ فیصلوں کی ضرورت ہو تی ہے ۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کی مقبولیت بڑھانے کے لیے اُن کے رنگ برنگے ملبوسات میں تصاویر کے ساتھ انتہائی بچگانہ، مضحکہ خیز پو سٹیں جاری کی جاتی ہیں۔وزیر اعظم کو یہی خبر نہیں کہ نپولین بو نا پارٹ، محمود غزنوی، تیمور لنگ، اکبر بادشاہ، رضیہ سلطانہ کا غلام یا قوت، نیلسن منڈیلا اور بے شمار حکمران بد شکل یا بد صورت تھے۔ کو ئی ناٹے قد کاتھا، کو ئی کالا، کو ئی لنگڑا، کو ئی بدنما تھا۔ دنیا کے اکثرحکمران قا بل ترین حکمران تھے جنھوں نے اپنے ملک و قوم کی کایا پلٹ ڈا لی اور تا ریخ میں امر ہو گئے۔ جہانگیر خوبرو اور حسین و جمیل بادشاہ تھا جبکہ جلال الدین اکبر معمولی صورت کا حا مل تھا لیکن وہ جہانگیر سے کہیں زیادہ جہاندیدہ اور لائق تھا۔ حکومت کا اہل وہی ہو تا ہے جو زیرک ہو۔ فہم و فراست کا مالک، سنجیدہ با وقار اور با اثر ہو۔ بینظیر بھٹو نے ایکبار مجھے انٹرویو میں کہا کہ وہ کافی شوخ، شرارتی اورباتونی ہیں مگر وہ بہت سنجیدہ رہتی ہیں اور مجموں میں بو لتی ہیں۔ باقی تمام حکومتی معاملات میں کم آمیز رہتی ہیں۔ اب موجودہ حکومت کی جو چار سالہ کارکردگی سامنے آئی ہے۔ اُس میں وزیر اعظم سمیت وزراء اورمشیر سبھی رات دن بو لتے ہیں جبکہ اُن کی کارکردگی سو ئی رہتی ہے۔ وزرا ء اور مشیر رات دن پریس کانفرنسیں کرتے نہیں تھکتے۔ تقریباََتمام وزا رتوں کی کارکردگی صفر ہے ۔لیکن وزراء اور مشیر رات دن وزیر اعظم کے لیے رطب السان رہتے ہیں۔ اپوزیشن پر تنقید کرتے اور معا شی ترقی کے جھوٹے اعداد و شمار جاری کرتے ہیں۔ کورونا کے لیے تمام ممالک نے بہترین اقدا مات کئے ہیں لیکن ہماری حکومت اپنے منہ میاں مٹھو بنی رہتی ہے۔ مہنگا ئی طوفان اٹھا رہی ہے اور یہ معیشت کے جھوٹے قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور یہ ترقی کے دعوے کررہے ہیںانہوں نے پاکستان کے تمام ممالک سے سفا رتی تعلقات ختم کر ڈالے ہیں۔ سفیروں اور قونصل خانوں کے ارا کیں سے ملاقاتوں کے فوٹو شوٹ جاری کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں نہ کو ئی ڈیم بنا نہ یو نیورسٹی نہ لائیبریری، نہ ہی کو ئی ہسپتال یا پارک بنا۔ محض کاغذی ہیں جن پر حکومت چل رہی ہے۔ نہ کو ئی گھر بنتے دیکھا نہ نو کریاں ملتے دیکھیں نہ انصاف اور مسا وات دیکھی۔ اگر کو ئی تبدیلی آئی تو اخلاق کی تنزلی کی آئی ہے، علم میں کمی آئی ہے۔ قا نون میں کمزوری آئی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑی ہیں۔ اُس پر بھی وزیر اعظم نے عجیب و غریب کام کر دکھایا کہ خود ہی وزیروں کو تعریفی سرٹیفکیٹ دینے شروع کر دیئے۔ دس وزرا ء کو جو سرٹیفکیٹ دئیے گئے۔ اُس پر پو ری قوم انگشت بدنداں ہے جبکہ سا رے وزراء شدید مشکل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام وفاقی و صو بائی وزراء میں سے صرف شاہ محمود قر یشی اور ڈاکٹریاسمین راشد ہی قا بل ذکرکارکردگی کے مالک ہیں مگر ان کو پس پُشت پر ڈال دیا گیا۔ اس لیے باقی وزراء نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس سے دنیا میں جگ ہنسائی ہو ئی ہے۔ اگر اپوزیشن یا کو ئی انٹر نیشنل تنظیم ایوارڈدیتی تو عزت ہو تی۔مریم نواز نے درست کہا ہے کہ وزیر اعظم نے دس چمچوں کے سرٹیفیکٹ دیا ہے۔ فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسناد دینے کا مطلب ہے کہ کھیل ختم ہونے والا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ بربادی کے ذمہ داروں کو انعام دینا عوام کے ساتھ زیا دتی ہے۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کر چکی ہے۔ اتحادی ناراض ہیں اور عوام سخت برہم۔ایسے مضحکہ خیز اقدا مات کے نتا ئج تبدیلی کی گھنٹی ہی بچاتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن