حضرت امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں اپنے افغان بھائیوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اور سچ پوچھیں تو افغان اب ہمارے لیے دردسر بن چکے ہیں۔ وطن عزیز میں 30لاکھ افغان مہاجر1979ء میں آئے تھے جن کی غیر رجسٹرڈ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ ہو چکی ہے۔ ہماری ملکی ترقی کی کوئی سمجھ نہیں آتی کہ ہم نے گندم، کپاس اور چاول کتنا پیدا کرنا ہے کیوں کہ چار کروڑ افغانوں کو بھی سمگل ہو کر ہمارا اجناس افغانستان پہنچ جاتا ہے۔افغان وہ واحد قوم ہے جس نے مملکت پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا اور افغانستان نے آج تک بین الاقوامی سرحد کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ اسے ڈیونڈر لائن ہی کہتے ہیں۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 3500 سو کلو میٹر سے بھی لمبی سرحد اربوں روپے کی باڑ لگانے کے باوجود غیر محفوظ ہے۔ آئے روز افغانستان سے دخل اندازی اور حملے معمول بن چکے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو افواج اور اتحادی امریکی ٹروپس کی اخلاقی مدد کرکے پاکستان نے اپنے ایک لاکھ سے بھی زائد شہری شہید کروا لئے جبکہ دس ہزار سے زائد عسکری افسر اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سو پچاس ارب ڈالر کا ملکی انفراسٹرکچر تباہ کروا لیا۔ آج بھی پوری دنیا نے ابھی افغان طالبان کی اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا مگر ہمارے ہر دل عزیز پرائم منسٹر صاحب غیر ملکی سفیروں اور دوست سربراہ مملکتوں سے افغان حکومت کو تسلیم کرانے کے لئے ہلکان ہوتے جارہے ہیں۔ توقع تھی کہ افغانستان سے نیٹو اور امریکی انخلاء کے بعد بھارت کے افغانستان میں بیس کے قریب قونصل خانے اور دہشت گردوں کو تربیت دینے والے ٹریننگ کیمپس بند ہو جائیں گے جس سے پاکستان کی معیشت اور امن و امان کو استحکام آئے گا مگر گزشتہ ایک ماہ کی سرحد پار دخل اندازی سے ابتک درجنوں وطن کے رکھوالے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔پاک افواج کے بہادر و نڈر سپہ سالار اور حکمرانوں کو اب چپ کا روزہ توڑنا ہوگا اور ملکی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے شرارتی ہمسائیہ ممالک کے خلاف ایکشن لینا ہوگا یا پھر کیا واقعی ہم نے گھاس کھاکر جو نیوکلیئر حاصل کیا ہے وہ محض پھل جھڑیاں چلانے کیلئے ہے۔افغانستان کی طرف سے پاکستان کا دوستی کا ہاتھ ہمیشہ جھٹکا جاتا رہا ہے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے پہلے حامد کرزئی اور پھراشرف غنی کو تخت پر دوش کر دیا تو ان دونوں کی پاکستان سے نمک حرامی واضح ہونے لگی۔ افغانستان کے اندر طالبان اور بعدازاں داعش بھی سرگرم ہوئی۔ القاعدہ بھی موجودتھی۔ ان کی دہشتگردی نے امریکہ اور افغان حکمرانوں کی ناک میں دم کر دیا۔ اس کا الزام بھارت کے ایماپر حامد کرزئی اور اشرف غنی پاکستان پر عائد کرتے تھے، بعد میں امریکہ نے بھی اپنا کان ہاتھ لگا کر دیکھنے کے بجائے بھاگنا شروع کر دیا۔ ان سب کو پاکستان سے دہشتگرد افغانستان میں داخل ہوتے نظر آنے لگے۔ ڈھٹائی کی انتہا کہ پاکستان کو مطلوب فضل اللہ جیسے دہشتگردوں کو وہاں پناہ دی گئی۔ پاکستان پر دہشتگردوں کی حمایت اور ان کو افغانستان میں داخل کرنے کے الزامات میں شدت آئی اور لائی لگ امریکہ نے پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ شروع کیا تو پاکستان نے افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس پر بھی افغان حکمران آپے سے باہر گئے۔ اس باڑ سے دراصل افغانستان کی سرزمین سے بھارت کے لیے پاکستان میں دہشتگردی کے راستے بند ہو جانے تھے۔ بھارت کے ایما پر افغانستان نے باڑ کی تنصیب کے خلاف واویلا شروع کر دیااور اسی شورشرابے میں افغانستان پر طالبان کا اقتدار بحال ہوا تو امریکہ نے ان کے اکائونٹ منجمد کر دیئے گویا نئی حکومت کی آکسیجن بند کر دی۔ افغانستان میں فاقوں کی نوبت آئی تو پاکستان مدد کرنے والوں میں خود سرفہرست اور دنیا کو بھی اس پر آمادہ کر رہا تھا۔ قارئین گذشتہ روز ایک امریکی عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ افغانستان کے منجمد اثاثے جن کی مالیت دس ارب ڈالر سے بھی زائدہے ۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر ’’نائن الیون‘‘کے متاثرین اور لواحقین میں تقسیم کر د یئے جائیں۔یعنی بھوک ،افلاس اور غربت میں مبتلا چار کروڑ افغانیوں کو بھوکا رکھا جائے اور یہ بھوکے اورنہتے جنگجو جن کے پاس اپنے تو ہیں ہی اب وہ امریکہ کے چھوڑے ہوئے اسلحہ سے بھی لیس ہیں۔ یہ سارے عوام پاکستان پر چڑھ دوڑیں اور جب ہم انہیں بارڈر پر روکیں گے تو ایک خوفناک قتل عام ہوگا جس کا سارا قصور پاکستان پر ڈال کر پاکستان کے خلاف معاشی پابندیاں لگانے کا سبب پیدا کیا جائے گا۔طالبان دور میں بھی سرحد پار سے پاک فوج کی چوکیوں پر حملے ہو رہے ہیں جو پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
قارئین!اس ساری گھمبیر صورت حال میں جب کہ ہمارے چاروں اطراف سرحدوں پر اور سرحدوں کے اندر شورش برپا کی جا چکی ہے ،پنجگور ،کرک اور چمن کی سرحدوں پر دہشتگردوں کی دخل اندازی اور درجنوں پاکستانی عسکری جوانوں کی شہادت اس بات کی غماز ہے کہ بھارت اور امریکہ ’’سی پیک‘‘ کی مخالفت میں پاگل ہو چکے ہیں جب کہ ہماری اپوزیشن ان حالات میں بھی اقتدار کو نوچنے میں مصروف ہے۔حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جب حکومت حالتِ جنگ میں ہو تو سارے عوام کواس کے شانہ بشانہ کھڑاہونا ہوگا۔