چیف جسٹس کے ریمارکس سے متعلق اٹارنی جنرل کے خط پر سیٹ میں ہنگا مہ ، حکومت اپوزیشن آمنے سامنے 


اسلام آباد (خبرنگار) سینٹ میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملک کے صرف ایک وزیراعظم کو ایماندار قرار دینے کے ریمارکس پر ارکان کا شدید احتجاج، شور شرابا ۔ احتجاج کے باعث اجلاس کی کارروائی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے اجلاس کی کارروائی مجبوراً غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ گزشتہ روز سینٹ کا اجلاس چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مجھے خط لکھا ہے، اور آپ کو بھی لکھا ہے، اس حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے لکھا ہے کہ وہ عدالت میں موجود تھے، سوشل میڈیا میں جو بات ہوئی کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ صرف ایک ہی وزیراعظم ایماندار تھے یہ بات غلط ہے۔ سوشل میڈیا رپورٹس درست نہیں تھیں۔ جج نے وہ الفاظ ادا نہیں کئے جو میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں امانت کے طور پر بات ہائوس کے سامنے رکھی جائے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے وضاحت نہیں کی، ایک بیانیہ دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود کورٹ میں موجود تھے، وہاں ملک کا صرف ایک ہی وزیراعظم دیانتدار تھا جیسی کوئی بات عدالت میں نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں 1993 اور 1988 کی اسمبلیاں توڑنے کی بات ہوئی تھی، سوشل میڈیا رپورٹس درست نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ اٹارنی جنرل نے یہ جرات کی ہے کہ ہائوس کی کارروائی کی وضاحت کریں، اٹارنی جنرل کو یہ استحقاق ہے کہ وہ دونوں ہائوسز میں آکر بیٹھ سکتا ہے، وہ اس ہائوس کا رکن نہیں، اس ہائوس کی کارروائی پر کنٹرول نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل اس ہائوس کی کارروائی پر وضاحت جاری نہیں کر سکتے نہ بات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کی جانب سے پارلیمنٹ کے اوپر حملہ ہوتا ہے تب بھی اٹارنی جنرل کو عدالت میں کھڑے ہوکر پارلیمنٹ کا دفاع کرنا چاہیے، اٹارنی جنرل کے اس خط پر تحفظات ہیں، ریکارڈ کے لیے وہ خط اس ہائوس کے سامنے رکھا جائے۔ وزیر قانون نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے صرف وضاحت کی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا جو سوشل میڈیا پر چلا۔ جس پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کس نے تبصرے کرنے کا حق دیا ہے، وضاحت کرنی ہے تو رجسٹرار وضاحت جاری کریں۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ انتخابات کی فی الفور تاریخ دیں، الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں اور میدان میں آئیں، کیا لاہور ہائی کورٹ عدالت نہیں۔ یہ تصحیح کر رہے ہیں کون ایماندار تھا کون نہیں۔ انہوں نے کہا تھا یہ پارلیمنٹ نا مکمل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک بڑی جماعت کو آپ نے دیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے، آئین کے تحت چلنا ہے تو کروائیں الیکشن ،آئین سامنے، عدالت کہتی ہے الیکشن کروائیں۔ عدالتوں کا احترام کرنا ہے تو آئین کا بھی احترام کریں۔ اس دور ان حکومت اور پی ٹی آئی اراکین آمنے سامنے آگئے۔ جس پر چیئرمین نے بار بار وارننگ کی تاہم دونوں جانب سے احتجاج جاری رہا۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ لگتا ہے آپ لوگ ایوان چلانے کے موڈ میں نہیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ آٹھ مہینے لاجز میں بیٹھ کر آجائیں گے تو کیسے چلے گا، لاڈ پیار والے استعفے قبول ہوئے تو آپ نے رونا شروع کر دیا، اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنا دامن دیکھیں۔ اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم نے کہاکہ یہ گریبان کی بات کرتے ہیں، اپنے گریبان تو دیکھیں، گریباں انہوں نے چھوڑے کہاں ہیں۔ بعد ازاں چیئرمین سینٹ نے اجلاس کی کارروائی غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔ واضح رہے کہ اجلاس کی کارروائی صر ف چند منٹ تک چل سکی۔ جس کے باعث آج کے ایجنڈے سمیت وقفہ سوالات بھی نہ لیاجا سکا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...