پاک بھارت تعلقات میں مودی کی جنونیت حائل


بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے دونوں ممالک کئی اقدامات کر سکتے ہیں لیکن علاقائی تنازعات اور مقبوضہ جموں و کشمیر پر جابرانہ ریاستی مظالم سمیت مسلم اقلیت پر ہندو توا کے انتہا پسند نظریے نے فاصلوں کو بڑھا دیا ہے اور علاقائی صورت حال میں روز بہ روز سنگین کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان واضح بدترین بحران مودی سرکار کی متنازع پالیسیاں اور اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے۔۔ ممکنہ طور پر بھارت میں عام انتخابات سے قبل دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارتی عوام کے سامنے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے پاکستان مخالف کارڈ استعمال کیا جائے اور مودی سرکار جس طریقے سے یہ کارڈ استعمال کرتی ہے، اس کا چہرہ متعدد باربے نقاب ہوچکا ہے، مودی سرکار کے حالیہ عملی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک کو اپنے اختلافات دور کرنے اور اہم امور پر مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کے لئے باقاعدگی سے سفارتی بات چیت کرنی چاہئے۔ حالاں کہ پاکستان، بھارت کو واضح پیغام دے چکا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنے کے اقدامات کر سکتے ہیں، اعتماد سازی کیلئے سب سے پہلے ان احکامات کو واپس لینا ہوگا جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو قدرے کم کر سکتے ہیں اس کے بعد ہی لوگوں کے درمیان رابطے میں اضافے، تجارتی اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے جیسے اقدامات سے دو ایٹمی طاقتوں میں بھیانک کشیدگی کم ہونے کی شروعات ہوسکتی ہیں۔
دنیا بھر میں پاکستان خطے میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، مودی سرکار کی خارجہ پالیسی میں پڑوسی ممالک میں غیر قانونی مداخلت اور پاکستان مخالف اقدامات کو تسلیم کئے جانا تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت اگر دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے علاقائی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے اور خطے میں استحکام اور امن کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ و مداخلت سے باز رہنا ہوگا۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کو فوجی طاقت کا سہارا لینے کے بجائے مذاکرات اور دیگر سفارتی ذرائع سے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی مشترکہ کوشش کرنی چاہئے۔ اس کیلئے خطے میں امن و استحکام کے فروغ میں اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں سمیت بین الاقوامی برادری کی حمایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کو زیادہ مستحکم اور پرامن تعلقات قائم کرنے کیلئے سمجھوتے کرنے اور مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کیلئے تیار ہونا چاہئے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر مسئلہ پیچیدہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع کا سب سے اہم موجب بھی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی میں کردار ادا کرنے والے کچھ عوامل میں شامل ہیں، مقبوضہ کشمیر کی حیثیت اور قبضے کی نوعیت کے بارے میں مختلف سیاسی نظریات ہیں بھارت کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے مشترکہ بنیاد کو تلاش کرنا مشکل ہے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی نے دونوں ممالک کیلئے سلامتی کے خدشات کو جنم دیا ہے، جس سے اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنا مشکل ہوتا جارہاہے۔ دیرینہ سیاسی اور علاقائی تنازع دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کا سبب بنا ہے، جس سے ان کیلئے بامعنی بات چیت اور تعاون میں مشغول ہونا دشوار گزار عمل ہے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی کرداروں کی شمولیت اور اپنی ہی قرار دادوں پر عمل درآمد نہ کئے جانے سمیت عالمی قوتوں کے فروعی مفادات نے اس مسئلے کو پیچیدہ اور اسے حل کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ غیر جانب دار ثالث ایک پرامن اور سفارتی حل تلاش کرنے میں مدد دے سکتا ہے لیکن بھارت کسی بھی ملک کی ثالثی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا، جب کہ کئی ممالک نے ثالثی کی پیش کش بھی کی کہ جس میں دونوں فریقوں کے خدشات کو مد نظر رکھے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی لیکن مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ اس کیلئے ممکنہ طور پر مستقل کوشش اور سمجھوتے کرنے اور مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی آمادگی کی ضرورت ہوگی۔ بین الاقوامی برادری ان کوششوں کی حمایت اور خطے میں امن و استحکام کے فروغ میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے پاس جدید جنگی ساز و سامان سے لیس ایٹمی طاقت کی حامل افواج ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مسلح تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں متعدد جنگیں بھی شامل ہیں، سیاسی اعتبار سے نریندر مودی کو بھارت میں ایک پولرائزنگ شخصیت سمجھا جاتا ہے، جس کی ہندو انتہا پرست گروہوں میں حمایت کی مضبوط بنیاد ہے، لیکن سیکولر اور اقلیتی گروہوں کی طرف سے بھی اہم تنقید اور مخالفت ہے۔کووڈ 19 وبائی مرض سے نمٹنے کے مودی کے طریقہ کار کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس میں تیاری کی کمی، وائرس کے پھیلاو¿ کو کنٹرول کرنے کیلئے ناکافی اقدامات، اور بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت کا رد عمل شامل ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کی پالیسیوں اور اقدامات نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر حمایت اور تنقید دونوں کو جنم دیا ہے۔ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور متنازع پالیسیوں کے پیش ِ نظر ضروری ہے کہ کم از کم دو پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی اس حد تک نہ بڑھے جس سے پورے خطے میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں کسی بڑے بحران کو سامنا ہو، عالمی برداری کو دنیا میں امن کے خاطر اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ دونوں ممالک کے درمیان ان تنازعات کے حل کو یقینی بنائے جو ایٹمی جنگ کے سائے کم کر سکیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات کیلئے مودی سرکار کی ہندو توا کی سوچ کو محدود کرنا ہوگا کیونکہ اس کے اثرات سے عالمی امن کو خطرات در پیش ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن