’مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا‘


شاعر مشرق علامہ اقبال عظمت انسان کے قائل تھے- ان کی فکر اور فلسفے کے مطابق انسان اشرف المخلوقات ہے - ہر انسان کو اللہ تعالیٰ صلاحیتوں سے نوازتا ہے- سازگار ماحول میں انسانوں کو اپنی خدادا صلاحیتوں کو سنوارنے اور نکھارنے کا موقع ملتا ہے-علامہ اقبال نے کہا
عروج ِآدم ِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ ِ کامل نہ بن جائے
مشرقی پاکستان کا سانحہ المناک تھا البتہ مسرت کا پہلو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کے بعد مختلف شعبوں میں ترقی کر رہا ہے اور تعلیم، آبادی کی منصوبہ بندی، ہیومن ریسورس اور معیشت میں پاکستان سے آگے نکل گیا ہے- 23 مارچ 1940 ءلاہور میں جو قرارداد منظور کی گئی اس میں اتفاق رائے ہوا تھا کہ پاکستان میں جو صوبے شامل ہوں گے وہ خود مختار ہوں گے- آزادی کے بعد اس قرارداد پر عمل نہ کیا گیا- اس قرارداد کے مطابق صوبوں کو خودمختاری 63 سال بعد 2010 ءمیں اٹھارویں ترمیم منظور کر کے دی گئی - مغربی پاکستان کے سیاستدانوں، سول ملٹری بیوروکریٹس ،بڑے تاجروں اور صنعت کاروں نے مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سمجھ لیا - پاکستان کی خالق جماعت 1954 ءمیں مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات ہار گئی- یاد رہے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد 1906ءمیں مشرقی پاکستان ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی- جنرل ایوب خان نے امریکی آشیرباد سے پاکستان پر مارشل لاءمسلط کرکے مشرقی پاکستان سے سیاسی و جمہوری تعلق ہی ختم کر دیا- جنرل ایوب خان نے اپنی ڈائری مطبوعہ اوکسفرڈ پریس میں تسلیم کیا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ مشرقی پاکستان علیحدگی اختیار کر لے گا - کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بارے میں چودہ سو صفحات پر مشتمل پہلی تفصیلی اور مستند کتاب "مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا " کے نام سے بک شاپس کی زینت بنی ہے-میں نے اپنی زندگی میں اس قدر وزنی کتاب کبھی نہیں دیکھی - یہ منفرد مستند تاریخی دستاویز محترم الطاف حسن قریشی کی تصنیف ہے- ان کا شمار پاکستان کی ان ممتاز اور محترم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کو اپنی باشعور آنکھوں سے بنتے دیکھا -وہ پاکستان کے صف اول کے دانشور اور مفکر صحافیوں میں شامل ہیں - وہ نرم لہجے میں گفتگو کرنے اور دلکش قہقہہ کی حامل شخصیت ہیں-ان کے احباب اور شناسا زندگی کے اہم شعبوں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں لہٰذا ان کو پس پردہ حقائق تک رسائی حاصل ہوتی رہی- الطاف حسن قریشی 1964 ءمیں پہلی بار ڈھاکہ گئے اور چیف جسٹس محبوب مرشد کا تفصیلی انٹرویو کیا- اس کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کے درجنوں دورے کیے اور بنگالی بھائیوں کے سلگتے مسائل کے اسباب جاننے کی کوشش کرتے رہے- 
”ٹوٹا ہوا تارا “محترم الطاف حسن قریشی کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوتی رہی ہیں- ان کے قابل فخر اور ٹیلنٹڈ پوتے ایقان حسن قریشی نے ان تحریروں کو شب وروز محنت کرکے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے- الطاف حسن قریشی اپنی کتاب کے دیباچے "محشر خیال "میں لکھتے ہیں-" مجھے آغاز ہی میں یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ غیر شعوری طور پر میرے تجزیوں اور مشوروں میں یہ خواہش غالب رہی ہے کہ ملک میں ان سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو بااختیار ہونا چاہیے جو اسلامی اور جمہوری اقدار پہ یقین رکھتی ہوں اور قومی سوچ کی علمبردار ہوں - مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ بعض حقائق و حوادث کی تعبیر نو میری رائے پر اثر انداز ہوئی ہے" -
"میں نے اپنے سارے تجربات مشاہدات اور تاثرات ٹوٹا ہوا تارا "میں محفوظ کر دیے ہیں چنانچہ آپ اس کا مطالعہ کرتے ہوئے دھان اور پٹ سن کی خوشبو سونگھ سکیں گے اور سچے جذبوں کی بے ساختگی سے بھی لطف اندوز ہوں گے- اس ماحول کی تیرگی کا بھی اندازہ ہو سکے گا جس میں تاریخ سے بے خبر فوجی حکمرانوں سے ہمالیہ ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جب کہ سیاستدان حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کے باوجود اپنی انا کے خول میں بند رہے- واقعات سے یہ بھی آشکار ہوا کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں جن پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے رہے وہ کس قدر حقائق سے دور اور فہم و فراست سے تہی دامن تھیں اور ان کے گمراہ کن تجزیے اور گمراہ کن معلومات حکومت کی تباہ کن پالیسیوں کی اساس بنیں"- اپنی نوعیت کی اس منفرد اور شہکار کتاب میں شیخ مجیب الرحمن ،ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحییٰ خان، نوابزادہ نصراللہ خان، خواجہ خیرالدین، فضل القادر چوہدری اور ڈاکٹر اے ایم مالک کے تفصیلی انٹرویوز شامل ہیں- پاکستان کی تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بار بار پرانی غلطیوں کو ہی دہراتے چلے جا رہے ہیں-
اس کتاب کے آخر میں "حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی چنگاریاں" اور" سقوط ڈھاکہ میں پوشیدہ اسباق" قابل توجہ ابواب ہیں- الطاف حسن قریشی کتاب کے آخری باب میں لکھتے ہیں " جنرل یحییٰ مارچ 1971 ءکو فوجی آپریشن کا حکم دے کر ڈھاکہ سے اس طرح آئے کہ پھر ادھر جانے کا نام نہ لیا - وہ اور ان کے اہم سٹاف افسر انتہائی نازک لمحات میں مشرقی پاکستان کے کمانڈر اور گورنر کو دستیاب نہیں تھے- جناب اے اے کے نیازی کو جب ہتھیار ڈالنے کا سگنل موصول ہوا تو ان کے فوجی ساتھیوں نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی اس پر فیصلہ ہوا کہ جی ایچ کیو سے وضاحت حاصل کی جائے- رابطہ کرنے میں 24 گھنٹے لگے جبکہ بھارتی فوجیں ڈھاکہ پر دستک دے رہی تھیں- ہمیں اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ سیاسی قیادت ہو یا فوجی قیادت اس کے ذاتی کردار اور مشاغل پر گہری نگاہ رکھنی چاہیے اور فوجی حکومت کی ہر اس خوبصورت مہم جوئی کا بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے جس کا مقصد اقتدار کو طول دینا ہو " ۔
ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم زندگی بھر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی سر پرستی اور رہنمائی کرتے رہے- ایوانِ قائد اعظم کی تعمیر ان کی زندگی کا یادگار کارنامہ ہے-انہوں نے اس ادارے کو چلانے کے لیے نوجوانوں کی تربیت بھی کی جن میں شاہد رشید مرحوم، سیف اللہ چودھری اور ناہید عمران گل شامل ہیں جو نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان قائد اعظم کو بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں ان کو میاں فاروق الطاف، محترمہ مہناز رفیع اور مشاہد حسین سیدکی رہنمائی حاصل ہے - گزشتہ دنوں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں نظریہ پاکستان ایک تحریک کے عنوان سے تین روزہ سالانہ کانفرنس ہر حوالے سے کامیاب رہی یقینا ڈاکٹر مجید نظامی کی روح خوش ہو گی کہ ان کا بنایا ہوا نظریاتی تربیتی ادارہ کا میابی کے ساتھ چل رہا ہے-

ای پیپر دی نیشن