بدحال عوام پر آئی ایم ایف کے برستے ہتھوڑے

Feb 15, 2023


آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کی بحالی کیلئے ورچوئل معاہدہ ہونے سے پہلے ہی حکومت ِپاکستان نے اپنے عوام کو مہنگائی کے سونامیوں کی جانب بے دردی کے ساتھ دھکیلنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان آنیوالے آئی ایم ایف مشن نے اسلام آباد میں پاکستانی وفد سے دس روز تک جاری رہنے والے مذاکرات دانستاً بے نتیجہ رکھے اور ورچوئل معاہدے کیلئے اسے آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کی جانیوالی شرائط پر پیشگی عملدرآمد کا کہا چنانچہ پاکستان کے حکام نے آئی ایم ایف کی محض ایک عشاریہ ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط کی بحالی کی خاطر بے بس و مجبور عوام کو کند چھری سے ذبح کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ روز بھی مجوزہ معاہدہ کی شرائط کے عین مطابق گھریلو‘ صنعتی اور پاورز سیکٹر کیلئے گیس کے نرخوں میں بے مہابہ اضافہ کر دیا گیا جبکہ وفاقی کابینہ پہلے ہی بجلی کی قیمت بڑھانے کیلئے اضافی سرچارج لگانے کی منظوری دے چکی ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت ای سی سی کے اجلاس میں وزارت توانائی کے پٹرولیم ڈویژن کی سمری منظور کی گئی۔ 
اجلاس میں مالی سال 2022-2023ءکیلئے گیس سیل پرائس اور ہر قسم کے گیس صارفین کیلئے ٹیرف میں اضافہ کی سمری پیش کی گئی جس میں جنوری تا جون 2023ءکے عرصہ کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ تجویز کیا گیا تھا۔ ای سی سی نے اسکی فی الفور منظوری دے دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اوگرا کی سفارشات میں تمام صارفین کیلئے 75 فیصد تک گیس مہنگی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اسی طرح ای سی سی کے اجلاس میں وزارت اقتصادی امور کی طرف سے جی20 کی ڈیٹ سروس کو معطل کرنے کی سمری پیش کی گئی جبکہ وزارت تخفیف غربت کی جانب سے بی آئی ایس پی کا بجٹ بڑھانے کی سمری پیش کی گئی چنانچہ ای سی سی نے بی آئی ایس پی کیلئے چالیس ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی منظوری دے دی۔ اجلاس کے فیصلہ کے تحت گیس کی قیمتوں میں اضافہ سی این جی سمیت تمام شعبوں کیلئے کیا گیا ہے جو یکم جنوری سے 30 جون 2023ءتک نافذالعمل رہے گا۔ مختلف سیکٹرز کیلئے گیس کی قیمت میں 16 عشاریہ چھ فیصد سے 124 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے سے صرف 50 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنیوالے گھریلو صارفین مستثنیٰ ہونگے۔ 
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت منی بجٹ بھی تیار کرچکی ہے جس کے تحت وفاقی وزیر خزانہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ اگرچہ وہ اس امر کے داعی ہیں کہ نئے ٹیکسوں کا کوئی بڑا بوجھ عوام پر نہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم یہ ممکن نہیں کہ عام آدمی نئے ٹیکسوں سے متاثر نہ ہو۔ عوام تو بالواسطہ ٹیکسوں سے بھی براہ راست متاثر ہوتے ہیں جیسے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھنے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے علاوہ تمام اشیائے ضرورت کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح بجلی‘ گیس کے نرخ بڑھتے ہیں تو فیکٹری مالکان عام آدمی کے زیراستعمال اپنی مصنوعات کے نرخ بھی بڑھا دیتے ہیں جبکہ ادویات کے نرخ بڑھنے سے بھی غریب آدمی بالخصوص تنخواہ دار طبقات زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن کے محدود بجٹ میں پہلے ہی آسائشات والی زندگی بسر کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔ اب مجوزہ منی بجٹ میں 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگیں گے تو یہ ہتھوڑا درحقیقت عوام الناس کے سروں پر ہی برسے گا۔ منی بجٹ کے ذریعے جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز ہے تو جی ایس ٹی کے زمرے میں آنیوالی جو اشیاءعوام کے زیراستعمال ہیں‘ وہ جی ایس ٹی کی شرح میں ہونیوالے اضافے سے خود کو بھلا کیونکر بچا پائیں گے۔ جن اشیاءپر زندگی کا دارومدار ہے‘ وہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہیں جیسے تیسے خریدنے پر مجبور ہوگا چنانچہ عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالنے سے متعلق وزیر خزانہ کا دعویٰ عوام کے ساتھ مذاق سے ہی تعبیر ہوگا۔ منی بجٹ میں نان فائلرز کیلئے دودھ پر وِدہولڈنگ ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ ہوا ہے تو اس سے فی الواقع ملک کے کروڑوں عوام براہ راست متاثر ہونگے۔ اسی طرح سگریٹ‘ جوسز اور کولڈ انرجی ڈرنکس پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز زیرغور ہے تو یہ اشیاءبھی عوام کے لوازمات میں ہی شامل ہیں اس لئے ہاتھ گھما کر کان پکڑنے سے بہتر ہے کہ آپ سیدھے ہاتھ کان پکڑیں اور عوام کو سہانے سپنے دکھا کر گمراہ کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ عوام تو حکمرانوں کی اس مجبوری سے بھی آگاہ ہونا چاہتے ہیں جو انہیں گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سال سے آئی ایم ایف کے قرض کے حصول کے حوالے سے لاحق ہے۔ اگر معیشت کی بحالی کے نام پر آئی ایم ایف سے قرض در قرض لینے کے باوجود قومی معیشت کا بیڑہ عرق ہو رہا ہے تو عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ آئی ایم ایف کے قرضے کس مد میں استعمال ہو رہے ہیں کیونکہ انکے ثمرات نہ ملکی معیشت پر نظر آرہے ہیں اور نہ ہی عوام کی حالتِ زار میں کسی بہتری کی امید نظر آتی ہے۔ 
بادی النظر میں تو آئی ایم ایف کا ایجنڈا پاکستان مخالف قوتوں کی ان سازشوں کا ہی شاہکار نظر آتا ہے جن کے تحت پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور قومی غیرت کو نچوڑ کر اسے بے بس و لاچار کرنا مقصود ہے۔ اگر ملک کی معیشت اسی طرح آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی رہے گی اور پاکستان کا ہر بچہ آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان پر سود کا بوجھ لئے پیدا ہوگا تو ہماری سرزمین پر قومی غیرت و حمیت بھلا کیونکر پنپ پائے گی اور عوام کا اپنے اچھے مستقبل کا خواب بھی کہاں شرمندہ¿ تعبیر ہو پائے گا۔ اس تناظر میں تمام قومی‘ سیاسی‘ عسکری قیادتوں کو باہم سر جوڑ کر بیٹھنا اور وطن عزیز کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے کا کوئی قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا۔ جن ممالک نے اپنی معیشت کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے سے بچایا ہے اور جن ممالک نے آئی ایم ایف کے قرضوں کی خاطر اپنی آزادی و خودمختاری کو کوئی ہلکی سی آنچ بھی نہیں آنے دی‘ ہمارے عالی دماغوں کو ان ممالک کی قومی پالیسیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینا اور انہی جیسا آبرومندی والا چلن اختیار کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکیج کے حوالے سے ہماری آج کی صورتحال ہمیں مستقل طور پر آئی ایم ایف کا دستِ نگر اور ہمارے بچے بچے کو بھکاری بناتی نظر آرہی ہے۔ یہ چلن کسی غیرت مند قوم کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ 

مزیدخبریں