ڈاکٹر سعید مرتضیٰ
ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ کلینیکل سائنسز ، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
طبعی و کیمیائی طور پر آکسیٹوسین ایک نیورو پیپٹائڈ ہارمون ہے جو کہ پیچوٹری گلینڈ کے ایک حصے نیورو ہائپوفیئسس (Neurohypophysis) سے خارج ہوتا ہے۔ یہ ہارمون نو امینو ایسڈز پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ایک ہی طرح کے دو امینو ایسڈز: سسٹین ایک اور چھ کے درمیان ڈبل سلفر بانڈ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ابالنے پر بھی آکسیٹوسین کی کیمیائی ساخت پر اثر نہیں ہوتا۔تاریخ میں اس کی کیمیائی ساخت کو پہلی بار 1909 میں ہنری ڈیل نے مرتب کیا۔ اس کے بعد ایک سائنس دان وینسڈ ڈیوویگناڈ (Vincet du Vegneuad) نے اسے 1953 میںمصنوعی طور پر تیار کرکے پہلی مرتبہ استعمال کیا جس پر انہیں 1955 میں اس کام پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اگرچہ امریکہ کی ایف ڈی اے نے آکسیٹوسین کو اجازت یافتہ اور ممنوعہ دوا کے طور پر منظور کیا ہوا ہے لیکن دنیا میں طبی استعمال کے علاوہ اس کا استعمال ممنوع ہے۔ جنوبی ایشیاء میںیہ دوا زیادہ تر جانوروں میں دو مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ایک دودھ کو تھنوں میں چھوڑنے کیلئے دوسرا بچہ جننے میں مدد کرنے پر ۔ مختلف سرویز کے مطابق ہندوستان اور پاکستان میں یہ دودھیل جانوروں میں دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے اس دوا کا اندھا دھند استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ایک سروے کے مطابق دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے اس کا استعمال 99.6 فیصد تک کیا جاتا ہے۔ جبکہ اٹلی میں بھی 15-20%تک پہلی مرتبہ بچہ جننے والی مادہ بھینسوں میں دودھ نکالنے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دودھ دینے والے جانوروں میں بھی 25 فیصد سے زائد کو آکسیٹوسن کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے جن میں 70 فیصد سے زیادہ بھینسوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ آکسیٹوسین کا جانوروں میں استعمال کو پسند نہیں کیا جاتا لیکن زیادہ تر کمرشل ڈیری فارمرز اس کا کثرت سے استعمال کر رہے ہیں ،خاص طور پر بھینسوں کو پالنے والے ڈیری فارمرز۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ عا م طور پر ڈیری فارمرز جانوروں کی تولیدی اور پیداواری صلاحیت پر آکسیٹوسین کے استعمال اور اس کے اثرات کے بارے میں خدشات رکھتے ہیں لیکن وہ بھی دودھ حاصل کرنے کے لیے اس کا کثرت سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے ملک میں عام لوگوں میں ان جانوروں سے حاصل کردہ خارجی زیر انتظام آکسیٹوسین دودھ سے متعلق صحت عامہ کے بارے میں بہت سے منفی تاثرات ہیں۔ چونکہ بھینس ایک کلیدی دودھ دینے والا جانور ہے اور ملک میں ان جانوروں سے دودھ حاصل کرنے کیلئے زیادہ تر آکسیٹوسین ٹیکے کا استعمال کیا جاتا ہے اس لیے مختلف سروے اسٹڈیز اور ڈیری فارمرز کی مختلف قیاس آرائیوں اور ان کی غلط فہمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیری جانوروں میں آکسیٹوسین ٹیکے کے بار بار استعمال کے متعلق ایک تحقیقی مطالعہ Buffalo Research Institute Pattoki (BRI) میں کیا گیا تاکہ ان جانوروں کی تولیدی اور پیداواری کارکردگی پر آکسیٹوسین کے اثرات کے بارے میں اْن خیالی / اختراعی تصورات کی تصدیق یا تردید ایک مشاہداتی عمل کے ذریعے کی جاسکے۔ اس مطالعہ میں دودھیل جانور خاص طور پر بھینسیں استعمال کی گئیں جن کے کئی تولیدی اور دودھ کے پیداواری پیرامیٹرز کا مطالعہ کیا گیا۔ اس مشاہداتی تجربے میں بھینسوں کو تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر گروپ میں آٹھ جانور تھے۔ ایک گروپ کو کوئی آکسیٹوسین کا ٹیکہ نہ لگایا گیا جبکہ بقیہ دونوں گروپوں میں بالترتیب دس انٹرنیشنل یونٹ اور تیس انٹرنیشنل یونٹ آکسیٹوسین ٹیکے کی مقدار زیر گوشت استعمال کی گئی۔ اس مطالعے میں دلچسپ نتائج برآمد ہوئے جو کہ درج ذیل ہیں ۔ اس تحقیق کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دودھیل بھینسوں میں آکسیٹوسن کے مسلسل استعمال سے تولیدی اعضاء پر نہ تو خاص فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی نقصان دہ اثرات۔ تاہم، اس کے دودھ کے بعض اجزاء جیسے چکنائی ، لحمیات ،لیکٹوز اور بیاہنے کے بعد دوبارہ ہیٹ میں آنے کے وقفے کے عمل کو کم کرنے میں کچھ کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح، یہ دیکھا گیا ہے کہ آکسیٹوسین ٹیکے کے استعمال کی صورت میںجانور بچہ جننے کے بعد پہلی مرتبہ ہیٹ میں آنے کا وقفہ ( Postpartum Period ) مختصر ہوجاتا ہے ۔ اس کے برعکس بیضہ دانی سے انڈے کا اخراج کا دورانیہ ، ہیٹ کا دورانیہ ، ہیٹ چکر (Estrus Cyclicity) کے دورانیے پر کچھ منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کابائیں بیضہ دانی پر کچھ فولیکلز (Follicles) کی تعداد کو بڑھانے میں اگرچہ مثبت اثر ہوتا ہے لیکن دائیں بیضہ دانی پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں دیکھا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بیرونی آکسیٹوسین ٹیکے کے استعمال سے ایک ہیٹ سے دوسری ہیٹ میں آنے کا دورانیہ (EstrousCycle Length)بار آور فولیکلز (Pre Ovulatory Follicle)،پروجسٹیران ہارمون کی مقدار اورCorpus Iuteumکے سائز پر کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔ اس طرح مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دودھ کی چکنائی کی مقدار اور پی ایچ کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مجموعی طور پریہ مشاہدے میں آیا کہ بھینسوں میں بار بار طویل مدتی(Exogenous Oxytocin) آکسیٹوسین ٹیکے کے استعمال سے بھینسوں کے پالنے والوں پر مصنوعی نسل کشی کی خدمات پر اخراجات میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ مزید یہ کہ جنین اور جنین پر مضر اثرات کی وجہ سے حمل کی شرح میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ آکسیٹوسین ہارمون کے مسلسل انجکشن کی وجہ سے حاملہ جانوروں میں حمل برقرار نہیں رہتا۔ جس پر جانوروں پر ہونے والے اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح ڈیری فارمرز کو ہونے والے معاشی نقصانات میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ حمل کی ناکامی کی وجہ سے مصنوعی حمل کی خدمات اور جانوروں کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہوجاتا ہے اس طرح پیداواری پیرامیٹرز پر موجودہ مطالعے کے نتائج سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دودھیل بھینسوں میں طویل مدتی آکسیٹوسین ٹیکے کا استعمال اگرچہ دودھ کی پیداوار میں اضافے اور اسکے کچھ اجزاء پر مثبت اثرات رکھتا ہے لیکن دوسری طرف دودھ کے بعض اجزاء پر اس کے ناگوار اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ دودھیل جانوروں کے حیوانہ اور تھنوں پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔مزید یہ کہ ساخت اور تھن کی صحت کے لحاظ سے یہ کچھ فائدہ مند اثرات رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ناگوار اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ نیز اس تجربے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دودھ کی پیداوار اور چکنائی کا تناسب آکسیٹوسین انجکشن والے دودھیل جانوروں میں بڑھ جاتا ہے اور یہ ڈیری فارمرز کے لیے منافع بخش ہو سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر طبعی خوراک پر پی ایچ میں اضافہ بالواسطہ طور پر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دودھ کے معیار اور ذائقہ میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بھینس (نیلی راوی) میں آکسیٹوسین ٹیکے کے طویل مدتی استعمال کے دونوں قسم کے اثرات ہیں۔ انسانی استعمال کے حوالے سے فائدہ مند اور نقصان دہ۔ لہذا یہ تجویز کیا گیا ہے کہ غیر طبعی خوراک دس انٹرنیشنل یونٹ سے زیادہ آکسیٹوسین ٹیکے کو دودھیل جانوروں میں استعمال کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ اس کے کچھ فائدہ مند اثرات ہیں، مزید برآںدودھ کی ساخت اور صحت عامہ کی پیچیدگیوں میں کسی قسم کی تبدیلی سے بچنے کے لیے آکسیٹوسین انجکشن کے طویل مدتی استعمال کو روکا جانا چاہیے۔ تاہم ناگزیر حالات میں طبعی خوراک جو کہ دس انٹرنیشنل یونٹ یا اس سے کم پر استعمال کی جا سکتی ہے ۔ مزید برآں یہ کہ آکسیٹوسین ٹیکے کا استعمال صرف ان جانوروں میں کیا جانا چاہیے جو دودھ حاصل کرنے کے دوران پریشانی کا باعث بنتے ہیں یا جن جانوروں کے بچے ابتدائی دنوں میں کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ آخر میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ جن جانوروں پر آکسیٹوسین ٹیکہ استعمال کر کے دودھ حاصل کیا گیا اور اس دودھ میں آکسیٹوسین کی باقیات کو چیک کیا گیا تو یہ بات عیاں ہوئی کہ آکسیٹوسین کے زیر انتظام جانوروں کے دودھ اور غیر آکسیٹوسین ٹیکے والے جانوروں کے دودھ میں آکسیٹوسین کی باقیات ارتکاز میں یکساں تھے۔ اس کے علاوہ، کچے اور ابلے ہوئے دودھ میں بھی آکسیٹوسین کی باقیات کی مقدار یکساں تھی۔ ان مشاہدات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بہتر تولیدی صلاحیت اور مستقبل کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے دودھیل جانوروں میں مسلسل طویل مدتی آکسیٹوسین ( exogenous oxytocin)ٹیکے کا استعمال ممنوع قرار دیاجائے۔ آخر میں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ آکسیٹوسین ٹیکے کے مسلسل استعمال سے دودھیل جانوروں کی صحت اور پبلک ہیلتھ سے متعلق مزید جاننے کے لیے نئے تجربات اور مشاہدات کی حوصلہ افزائی کی جائے اور حکومتی سطح پر وسائل مہیا کیے جائیں۔