آئی ایم ایف کا ”مشن“

ڈاکٹر سلیم اختر 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان 10 روز تک مذاکرات کے طویل دور کے باوجود سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو پایا اور آئی ایم ایف کا مشن وفد پاکستان پر پیشگی اقدامات کرنے کی شرط عائد کرکے واپس چلا گیا۔ دوسری جانب ہمارے حکمران آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی بھی کراچکے ہیں کہ پاکستان پیشگی اقدامات کرکے آئی ایم ایف کو مطمئن کریگا جس میں منی بجٹ لانے کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات ‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے پر آمادگی ظاہر کردی گئی ہے جبکہ گزشتہ روز آئی ایم ایف معاہدہ کی شرط کے مطابق بجلی کے بعد گیس 124 فیصد تک مہنگی کرنے کی منظور بھی دیدی گئی۔2022-23 ءکیلئے گیس سیل پرائس اور تمام طرح کے گیس صارفین کیلئے ٹیر ف میں اضافہ کی سمری پیش کی جس میں جنوری تا جون 2023ءتک کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ تجویز کیا گیا تھا۔ ای سی سی نے اسکی فوری منظوری دیدی۔ 
سوال یہ ہے کہ جس طرح آئی ایم ایف کی منشاءکے مطابق کام کیا جارہا ہے اور جس طرح ناروا شرائط پر اس سے قرضے لئے جا رہے ہیں‘ لیاقت علی خان کے دور میں لئے گئے پہلے قرض سے لے کر آج تک لئے گئے قرضوں میں سے عوام کی بہبود پر کیا خرچ کیا گیا۔ ملک میں ترقیاتی کام پر نظر ڈالی جائے تو اس میں کوئی بھی قابل ذکر منصوبہ نظر نہیں آتا جو موجودہ حالات میں ملک و قوم کی ترقی کیلئے ممدومعاون ثابت ہورہا ہو۔ نہ ڈیم بنائے گئے‘ نہ کارخانے لگائے گئے جس سے بے روزگاروں کو روزگار میسر آسکے۔ البتہ سڑکیں‘ انڈرپاس ضرور بنائے گئے تاکہ جن کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لئے جا سکیں۔ ان قرضوں سے آج تک قوم پر ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ 
بادی النظر میں آئی ایم ایف کا مشن تو یہی نظر آتا ہے کہ پاکستان کو اسی طرح قرضوں میں جکڑا رکھا جائے جس کیلئے اس نے ہمارے ہی ذریعے ڈالر کو بے لگام کرکے مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جس سے صرف ڈالر مافیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ ڈالر کے روز افزوں نرخ بڑھنے سے لیا گیا قرض بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری آنیوالی کئی نسلیں آئی ایم ایف کا قرض نہیں اتار پائیں گی اور یہ قرض ہمارے پاﺅں کی زنجیر ہی بنا رہے گا۔ ہمیں اس امر پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے کہ آئی ایم ایف کے اس مشن کے پیچھے کچھ بیرونی طاقتیں بھی ہو سکتی ہیں جو ہمیشہ پاکستان کی سلامتی کے درپے رہی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے وہ ان مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان کو مفلوج کئے رکھنا چاہتی ہوں۔ پاکستان کیخلاف بیرونی سازشیں تو ہمیشہ سے جاری رہی ہیں‘ اس لئے روزافزوں گرتی معیشت کا مسئلہ من حیث القوم ہمیں خود ہی حل کرنا ہوگا۔ ہمارے کرتا دھرتا جس طرح آئی ایم ایف کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور آئی ایم ایف بھی انکی کمزوریوں کو بھانپ کر اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کا مشن وفد معاہدہ کئے بغیر پیشگی اقدامات کی شرط پر واپس چلا گیا۔اسے بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے‘ وہ اسکی بہرصورت تعمیل کریگا‘ اس کیلئے اسے زیادہ پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں۔ اور اب جو کچھ ہم کر رہے ہیں‘ وہ تشویشناک ہی نہیں‘ بلکہ ایک آزاد‘ خودمختار اور ایٹمی طاقت سے حامل ملک کیلئے انتہائی شرمناک ہے۔ ابھی ورچوئل معاہدہ ہونا باقی ہے۔ پیشگی اقدامات پر عوام کی یہ درگت بنا دی گئی ہے‘ معاہدہ ہونے کے بعد جو حشر ہوگا‘ اس کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اتحادی حکومت جب اقتدار میں آئی تھی تو اس کا دعویٰ تھا کہ اسکے پاس بہترین اقتصادی ٹیم موجود ہے‘ وہ جلد ہی گرتی معیشت پر قابو پا کر عوام کو بہترین ریلیف دیگی۔ اس وقت ملک کی جو حالت ہے‘ وہ اسی بہترین ٹیم کا ہی کیا دھرا نظر آتاہے جس نے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا۔ اس وقت عوام کیلئے تن اور تنفس کا رشتہ قائم رکھنا دشوار ہو چکا ہے۔ زرعی ملک میں اجناس اور دوسری اشیاءناپید ہو گئی ہیں۔ گندم جیسی بنیادی چیز بھی ہمیں باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ ملک میں نہ گیس ہے‘ نہ بجلی اور نہ ہی پانی دستیاب ہے۔ دیکھا جائے تو ترقی کے اس دور میں ہم عملاً پتھر کے زمانے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر اب بھی سیاسی قیادتوں نے آپس کے اختلافات ختم کرکے سنجیدگی کے ساتھ ملکی حالات سدھارنے کی طرف توجہ نہ دی تو کوئی بعید نہیں کہ آج آئی ایم ایف نے سٹیل ملز اور دوسرے قومی اداروں کے نجکاری کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے‘ اگر ہمارا یہی چلن رہا تو کل کو اسکے حوصلے اتنے بلند ہو سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر اپنی بے رحم زبان کھول سکتا ہے۔ اس سے پہلے یہ نوبت آئے‘ سیاسی قیادتوں کو ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں اور کرسی کی لڑائی چھوڑ کر مل بیٹھ کر ملک کو بچانے کا سوچنا چاہیے۔ سیاسی قیادتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ انکی سیاسی دکانداری اس ملک کے وجود سے ہی چل رہی ہے‘ خدا نخواستہ اگر ملک نہ رہا تو اانکے کھیلنے کیلئے بھی کچھ نہیں رہے گا۔ اس لئے بہتر ہے آپس کے اختلافات بھلا کر آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کی سبیل نکالی جائے کیونکہ یہ ملک کی سلامتی اور اسکی بقاءکا بھی مسئلہ ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن