''ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے''


راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 

مرزا اسد اللہ غالب 72 برس کی زندگی گزارنے کے بعد 15 فروری 1869ءکو رخصت ہوئے ،ان کا ''دیوان غالب'' ماضی کی سنہری اور تلخ یادوں کی ایسی دستاویزہے جس سے تاریخ کے مددجز کے ساتھ گزرے وقتوں کے پیش منظر اور پس منظر کی جانکاری کا چراغ روشن کیاجاتا ہے۔ مرزا صاحب کا یہ شعر آج پاکستان کے سیاسی حالات کی بھرپور اور جامع عکاسی کررہا ہے!!
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے
 استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین دو نشستیں ہارنے کے جواز پر پارٹی قیادت سے مستعفی ہوگئے۔ جماعت اسلامی قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے صرف 2 پر کامیاب ہوئی اس '' حسن کا رکردگی'' کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے محترم سراج الحق نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے قائد اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے امیدوار پرویز خٹک نے غیر متوقع انتخابی ناکامی کے باعث '' سیاسی بریک'' لینے کا اعلان کیا۔اسی صوبے کے ووٹرز نے پانچ سابق وزرائے اعلیٰ امیر حیدر ہوتی' محمود خان' اکرام درانی' پرویز خٹک اور آفتاب شیر پاو¿ پر عدم اعتماد کیا۔ فیصل آباد' ٹیکسلا اور راولپنڈی سے تین سابق وزرائے داخلہ رانا ثناءاللہ ' چوہدری نثار علی خان اور شیخ رشید قومی اسمبلی کے ممبر نہ بن سکے ! کس کس جمہوری اور انتخابی تماشے کا ذکر کیا جائے!!
12 ویں عام انتخابات کو تمام دئیے ہفتہ عشرہ ہونے کو ہے ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان مکمل نتائج کا سرکاری اور حتمی اعلان کر چکا نہ اعتراضات سلجھانے اور نبٹانے کی کوئی سبیل سامنے نہیں آرہی ہے۔ لگتا ہے الیکشن کمیشن نے 2018ءیا اس سے قبل کے نتائج (اور تاخیری معاملات) سے کچھ نہیں سیکھا۔ 8 فروری 2024 کی رات سے نتائج آنا شروع ہوئے، 7 روز گزر گئے ابھی تک نتائج آرہے ہیں۔ دوسری طرف قومی سیاست کے بڑے ملاقاتوں ' رابطوں اور وعدوں کے ساتھ مبہم سیاسی حالات کو منزل کی طرف پہنچانے کی بجائے مزید گھمبیر کررہے ہیں۔ جوڑ توڑ اور سیاسی سودے بازی کا ''بازار '' سجا ہوا ہے۔ مہنگائی' بیروزگاری اور امن وآمان کی باتیں پس منظر میں چلی گئیں مستزاد کوئی سیاست جماعت اور سیاست دان اپنے انتخابی منشور کی بات میں نہیں کر رہا ، ابن انشاءیاد آگئے!!
توڑی ہے اس نے مجھ سے تو جوڑی رقیب سے
انشاءتو میرے یار کی اب جوڑ توڑ دیکھ
پاکستان کے تقریباً تمام چینل مختلف مقامات پر انتخابی تنازعات کو کور کررہے تھے یہ سلسلہ آج بھی دیکھا جارہا ہے۔ کئی امیدوار آراوز آفس کے سامنے دھرنا دئیے بھی دیکھے گئے۔ اسلام آباد میں بھی یہی تماشا دیکھا گیا۔ دوسری طرف 10 فروری کی سہ پہر دولت مشترکہ کے سربراہ گڈ لک میز کی پریس کانفرنس انتخابی ماحول اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو تسلی بخش کا سرٹیفکیٹ دیا جارہا تھا۔ سمجھ نہیں آتی ہم اس صورت حال کی عکاسی کے لیے کون سے الفاظ کا چناو¿ کریں۔ ''فافن'' کی مشاہداتی رپورٹ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہ دیا گیا۔ 5 کروڑ 90 لاکھ ووٹرز کی رائے دی' ٹرن آو¿ٹ 48 فیصد' خواتین ووٹرز کی پولنگ یوتھ آمد' نتائج میں تاخیر اور انٹرنیٹ کی بندش جیسے نمایاں پوائنٹ بھی فافن رپورٹ کا حصہ ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ یہ درست بھی ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔عوام کس پارٹی کو پسند کرتے ہیں، ووٹرز کی رائے کا چناو¿ کن امیدواروں کی طرف ہے ، ہمیں اس سے غرض نہیں ہمیں تو اپنا مفاد ، اپنی رائے اور اپنا فیصلہ عزیز ہے۔ یا د رکھیں خاندان اس رویے سے چلتے میں نہ سماج… جمہوریت کا حسن ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور مخالف رائے کو اہمیت دینا ہے۔عوامی مینڈیٹ کے احترام کے ساتھ ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ہم یہاں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کی 12 فروری کو ہونے والی پریس کانفرنس کا بطور خاص حوالہ دیں گے جنہوں نے پی ایس 129 سے 30 ہزار ووٹ کی فتح کر تسلیم کرنے سے انکار کیا ،ان کا کہنا تھاکہ فارم 45 کے مطابق یہاں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کو ووٹرز کی اکثریت کا اعتماد ملا وہ کسی دوسرے امیدوار کے مینڈیٹ کو اپنی جھولی میں نہیں ڈالیں گے… پیرپگاڑا کے خیالات بھی کچھ اسی قسم کے ہیں سنا ہے کہ وہ بھی اپنی جیتی دو نشستیں چھوڑ رہے ہیں۔
 یہ حالات اور پس منظر انتشار اور بے یقینی کا پتہ دے رہے ہیں، بس ایسے مناظر سے بچنے کے لیے اچھی روایات کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے 1985ءکی طرح صرف اپنی رائے کے اظہار اور اس کے نفاذ کی پالیسی اپنائی تو سیاسی صورت حال مزید خراب ہوتی جائے گی۔ہم 12 فروری کی دوپہر راولپنڈی کی گنجان شاہراہ کچہری روڈ پر تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے چوہدری عدنان کے بہیمانہ قتل پر افسوس اور تعزیتی کا اظہار کرتے ہیں۔ 48 گھنٹے گزرنے کے باوجو د پولیس قاتلوں کے نشان تک پہننچے میں ناکام ہے۔ کچہری روڈ میں انسانی زندگی چھینے کا محض یہ واقعہ نہیں بلکہ یہ حادثہ سیاسی حالات اور امن وامان کی صورت پر نوحہ کناںہے۔ ''ہم نیک وبد جناب کو سمجھائے دیتے ہیں''
٭…تاریخ کا سبق
فرعون کے دریائے نیل میں ڈوبنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا ، مگر ڈوبنا پڑا… شداد سینکڑوں سال اپنی بنائی جنت میں عشرت کرنا چاہتا تھا ، مگر دروازے پر پہنچ کر مر گیا …نمرود کی پلاننگ تو کئی صدیاں مزید حکومت کرنے کی تھی مگر ایک مچھر نے مار ڈالا… ہٹلر کے ارادے اور بھی خطرناک تھے مگر حالات ایسے پلٹے کہ خودکشی پر مجبور ہوا …دنیا کے ہر ظالم کو ایک مدت تک ہی وقت ملتا ہے جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو کچھ کام نہیں آتا سارا غرور ، گھمنڈ اور تکبر یہیں پڑا رہ جاتا ہے۔نیتن یاہو اور مودی کا انجام بھی زیادہ دور نہیں۔ امام علی کا فرمان ہے'' کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں''

ای پیپر دی نیشن