پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وفاقی حکومت کی تشکیل کے لئے مسلم لیگ ن کی حمایت کے اعلان سے واضح ہو گیا ہے کہ وفاقی حکومت مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعتوں کی ہوگی اس ضمن میں مسلم لیگ ن کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے لئے میاں محمد نواز شریف کی بجائے دوبارہ میاں شہباز شریف کو نامزد کیا گیا ہے تاہم پی ڈی ایم میں شامل سابق 16 ماہ کی وفاقی حکومت کی دو بڑی اہم سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے فی الحال نئی وفاقی حکومت کا عملی طور پر حصہ بننے سے اس حد تک معذرت کر لی ہے کہ وہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہوں گے تاہم پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صدر مملکت سپیکر قومی اسمبلی چیرمین سینٹ سمیت سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں پر اپنے اپنے امیدوار لانے کا عندیہ دے دیا ہے او ر صدر مملکت کے لیے اپنے والد سابق صدر آصف علی زرداری کا نام تجویز بھی کر دیا ہے مولانا فضل الرحمان الیکشن 2024 کے نتائج سے کسی طور خوش نہیں اور انہوں نے اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے وفاق میں اب تک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواران نمبروں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں مگر وہ بغیر کسی اتحاد کے کسی طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں پی پی پی کی جانب مسلم لیگ ن کو صرف حکومت سازی میں تعاون کی پیش کش اور خود وفاقی کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کے باعث یہ حکومت مسلم لیگ ن کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوگی بلکہ کانٹوں کا بستر ہوگی پیپلز پارٹی خود کوئی ذمہ داری لینے سے کترا رہی ہے کیونکہ اسے بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال میں حکومت کو مشکل فیصلے لینا ہوں گے اور وہ ماضی قریب کی 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت میں عوام پر ڈالے گئے مہنگائی کے بوجھ پر شدید عوامی ردعمل اور غصے کو بھانپ چکے ہیں اور اس بار حکومت کے اقدامات کی زمہ داری لینے سے اجتناب کر رہی ہے مگر صدر مملکت چیرمین سینٹ سپیکر قومی اسمبلی جیسے با اختیار عہدے اپنے پاس رکھ کر اپنے آئینی عہدوں کے اختیارات کے ذریعے اپنی موجودگی باور کرواتے رہیں گے اور آئندہ حکومت ہر لمحے پیپلز پارٹی کی مرہون منت رہے گی الیکشن 2024 کے نتائج سے واضح ہے کہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آرہی ہے جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں موجودہ ملکی حالات کسی طور پر بھی سیاسی عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتے چنانچہ ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو قومی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور تصادم ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کی پالیسی کو اپناتے ہوئے ملک وقوم کو اس مشکل صورتحال سے نکالنا ہوگا کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں اس وقت تمام سیاسی جماعتیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں انتخابی عمل اور نتائج کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور پی ٹی آئی جماعت اسلامی ںپیپلز پارٹی انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کر رہی ہیں جنوبی پنجاب میں انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو ملتان ڈی جی خان بہاولپور ڈویژن میں درجن بھر سے زائد امیدواروں دھاندلی کے الزامات عائد کر تے ہوئے عدالتوں اور اس الیکشن کمیشن میں اپیلیں دائر کیے ہوئے ہیں ضلع ملتان میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ دو امیدوار ملک عامر ڈوگر مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیٹے مخدوم زین قریشی 5 پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایم پی ایز معین ریاض قریشی بیرسٹر وسیم خان بادوزئی ملک عدنان ڈوگر ندیم قریشی ایاز بودلہ کامیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ایم این اے کا ایک امیدوار جلال پور پیر والا سے رانا قاسم نون مسلم لیگ ن کے تین ایم پی ایز سلمان نعیم لعل جوئیہ اور سابق ایم پی اے نغمہ مشتاق کے بیٹے نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ان کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی سید علی موسیٰ گیلانی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی حیدر گیلانی سمیت چار امیدواروں نے صوبائی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے پی پی پی کے کامیاب ہونے والے دیگر ایم پی ایز میں ملک واصف راں رانا اقبال سراج اور کامران عبداللہ مڑل شامل ہیں جبکہ دو امیدواروں مخدوم شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی جو این اے 152 سے امیدوار تھی اس نے الزام عائد کیا ہے کہ اسے دھاندلی کے ذریعے ہروا کر علی موسیٰ گیلانی کو جتوایا گیا ہے اسی طرح این اے 148 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار تیمور الطاف مہے نے بھی دھاندلی کا الزام عائد کیا ان کی درخواست پر ریٹرننگ افسر نے پوسٹل بیلٹ پیپرز کی دوبارہ گنتی کی جس میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ووٹ بڑھ گئے اور آراو نے سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا اس فیصلے کے خلاف تیمور الطاف مہے نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں رٹ دائر کر دی عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپیل خارج کر دی اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کی اسی طرح عدالت نے ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے الیکشن ہارنے والے امیدواروں کی اپیلیں خارج کر دی ہیں تاہم اب جیتنے والے امیدواروں کی الیکشن کمیشن کی جانب سے کامیابی کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد ٹربیونل قائم ہوں گے جہاں پر ہارنے والے امیدوار اپیلیں دائر کر سکیں گے۔