مرکز میں ’شہباز‘ صوبوں میں جماعتوں نے اپنی اپنی بساط بچھا لی

8فروری کے عام انتخابات اپنی تمام تر سرگرمیوں کے ساتھ مکمل ہوگئے، انتخابی نتائج کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیاہے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت نہ ملنے کے باعث وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ۔ حالیہ انتخابات میں 92نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار سرفہرست ہیں 79نشستوں  کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) دوسرے نمبر پر ہے اور 54 نشستوں کیساتھ پاکستان پیپلز پارٹی تیسری بڑی جماعت ہے تاہم صوبوں کے نتائج قدرے مختلف ہیں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواردو تہائی سے بھی  زیادہ اکثریت میںہیں اور وہ صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں ۔پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت سازی کی تیاریوں میں ہے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنتی نظر آرہی ہے پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھینے جانے کا  الیکشن کمیشن کا فیصلہ اس کو حکومت سازی میں مشکلا ت سے دوچار کیے ہوئے ہے ۔پی ٹی آئی کی قیادت نے عمران خان سے مشاورت کے بعد کے پی میں وزیر اعلیٰ کے لیے علی امین گنڈا پور کا نام پیش کردیا ہے علی امین گنڈا پور پر 9 مئی کے واقعات سمیت واقعات کے متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور وہ عبوری ضمانت پر ہیں آیا وہ ان حالات میں وزارت اعلیٰ کے لیے موزوں امیدوار ثابت ہو نگے یا نہیں آنے والے ایک ہفتے میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا دوسری طرف پی ٹی آئی وفاق میں نو منتخب خاتون ایم این اے شاندانہ گلزار کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کررہی ہے جو ایک خوش آئند قدم ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت قومی اور صوبوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں  سے بظاہر محروم ہو تی نظر آرہی ہے جو بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے ان سیٹوں  کے حصول کے لیے  کے  پی میں جماعت اسلامی پنجاب اور وفاق میں مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا ہے  اور اپنے آزاد امیدواروں کو ان جماعتوں میں شامل کروا کر اگلے پراسس کے ذریعے مخصوص نشستوں کو لینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے  تاہم یہاں پر اس امر کی وضاحت کردیں کہ  ایم ڈبلیو ایم نے خواتین کی مخصوص نشستوں  کے لیے اپنی ترجیحی فہرست جمع نہیں کروائی ہے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 104کے تحت ترجیحی فہرست جمع کروانے کا وقت اب ختم ہو گیا ہے سیاسی جماعتیں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ تک یہ فہرستیں جمع کروانے کی پابند ہوتی ہیں جس میںبعد ازاں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔چنانچہ پی ٹی آئی کا یہ الحاق بھی پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ کیے گئے انتخابی اتحاد کی طرح بے سود ہوتا نظر آرہاہے ۔دوسری طرف جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی ان کے ساتھ اتحاد کے بیان پر کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے اعلان کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے دو حلقوں میں دوبارہ گنتی میں جماعت اسلامی یہ 2  نشستیں بھی ہار گئی ہے۔ جماعت اب کراچی کی حدتک ہی اس اتحاد سے فائدہ اٹھا سکتی ہے باقی اس کے فوائد کم ہی نظر آرہے ہیں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے عمران خان کے ساتھ جیل میں ملاقات کے بعد یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ وفاق میں حکومت سازی کے معاملے پرکسی بھی مفاہمت کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن)،پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ قطعی بات چیت نہیں کرے گی۔ قیادت کے اس فیصلے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وفاق میںپی ٹی آئی آزاد ارکان اپوزیشن میں ہی بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔
 ادھر قومی اسمبلی میں بکھرے ہوئے قومی مینڈیٹ کے باعث وفاق میں حکومت سازی کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہورہی ہیں اور پی ڈی ایم(ٹو) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے گزشتہ روز تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں حکومت سازی کا فارمولہ تقریبا طے پا گیا ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت نے وفاق میں حکومت کی صورت میں میاں نواز شریف کی بجائے میاں شہباز شریف کو وزارت عظمٰی کے لیے نامزد کردیا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان پاوورشیرنگ کا فارمولہ بھی طے پاچکا ہے پیپلزپارٹی تمام آئینی عہدوں کا مطالبہ کررہی ہے اس کی خواہش ہے کہ صدر پاکستان، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ سمیت دیگر عہدے ان کے پاس رہیں ۔
پی پی پی  وزارتیں نہیں لے گی اور اپوزیشن میں بیٹھ کر ن لیگ کی حکومت کو جہاں ووٹ درکار ہو گا اسے ووٹ اور سپورٹ دے گی۔ یوں مسند اقتدار میں بھی رہیں گے اور حکومتی کارکردگی کے حوالے سے عوامی احتساب سے بھی بچ جائیں گے اس طرح ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ بھی شراکت اقتدار کے حوالے سے فارمولا طے کیا جارہاہے۔ عمران خان کے مائنس ہونے کے بعد میاں نواز شریف بھی مائنس ہوگئے ہیں اور اسکی ایک وجہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کو بہت کم نشستیں ملنابتائی جاتی ہے۔ دوسری طرف انہوں نے پنجاب کے لیے مریم نواز کو وزیر اعلی شپ کے لیے میدان میں اتار دیا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مریم نواز اپنی کارکردگی سے پنجاب جو مسلم لیگ کا بیس کیمپ کے طور پر جانا جاتا تھا اس کو دوبارہ مسلم لیگ کو واپس دلوا سکتی ہیں یا نہیں ۔
 قوی امکان ہے کہ آئندہ ہفتے صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے جو بھی جماعت اپنی اکثریت ظاہر کرے گی اسے حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی، کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنارہی ہے اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ، پی پی پی اور جمعیت علمائے اسلام حکومت سازی کے لیے بساط بچھا چکے ہیں عام انتخابات 2024کے نتائج میں بڑے بڑے اپ سیٹ ہوئے ہیں۔ادھر جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) نے اپنی پریس کانفرنس میں 8 فروری کے انتخابات کو مسترد کردیا مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ بنے، انتخابی عمل یرغمال بنا رہااب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔تاہم قوی امکان ہے کہ اتحادی مولانا کو بلوچستان میں حکومت سازی کا موقع دے کر رضی کرلیں گے۔حالیہ الیکشن میں قومی سطح کے سیاستدانوں کو بھی شکست ہوئی ہے استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کوقومی اسمبلی کے دو حلقوں سے شکست ہوئی ہے جس کے بعد انہوں نے عملی سیاست کو خیر باد کہنے کا اعلان کردیا ہے اسی طرح ایک حلقے سے نوا زشریف سمیت خرم دستگیر، جاوید لطیف، رانا ثنااللہ، نثار چیمہ، مرتضی جاوید عباسی جیسے بھاری بھرکم امیدوار شکست کھا گئے شاید ٹکٹوں کی تقسیم پر ان حلقوںکے ووٹر قیادت سے ناراض  رہے۔

ای پیپر دی نیشن