ووٹروں کی کھیڈ مک گئی

بالآخر ’’کھیڈ مک گئی‘‘ پنجابی زبان میں جب یہ کہا جائے کہ کھیڈ مک گئی تو بالعموم مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ معاملہ اختتام پذیر ہو گیا۔ یہی کچھ 8 فروری 2024ء کو وطن عزیز میں منعقدہ عام انتخابات کے اختتام پر دیکھنے کو ملا۔ عام انتخابات کی خوشی میں ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد کا قریب سے جائزہ لینے کیلئے مجھ سے ایک غلطی یہ سرزد ہوئی کہ اس عمل سے لطف اندوز ہونے کیلئے میں نے اپنے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ایسے گورے دوست کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کرلیا جس نے اپنی عمر کے 29 برس نچلی سطح کی برطانوی سیاست میں انتخابات کے اتار چڑھائو دیکھتے ووٹنگ کائونٹنگ میں گزارے ہیں۔ سوچا کیوں نہ  پاکستانی انتخابی عمل کے دوران اسکی رائے سے استفادہ کیا جائے۔ برطانیہ اور پاکستان کے اوقات میں آجکل چونکہ پانچ گھنٹے کا فرق ہے اس لئے پاکستان میں جب رات کے 10 بجے تو انگلستان میں اس وقت پانچ بجے سہ پہر کا وقت تھا۔ مختلف برطانوی اور پاکستانی ٹی وی چینلز‘ یوٹیوبرز‘ ولاگرز اور سوشل میڈیا پر عوامی رائے عامہ جاننے کیلئے گلیوں‘ محلوں‘ بازاروں میں پھیلے نمائندوں نے بھی اپنے تجزیوں کا آغاز کر کررکھا تھا جبکہ ٹی وی الیکشن پینلز میں شامل مختلف تجزیہ کاروں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار جاری رکھا اور یوں ووٹ کاسٹ کرنے کے حتمی وقت کے اختتام کا جب اعلان ہوا تو میری اور میرے مہمان گورے دوست کی حیرت کی اس وقت انتہاء￿ نہ رہی جب تجزیہ کاروں نے یہ اطلاع دی کہ انتخابی عمل کے بعد نتائج کے عمل میں اچھی خاصی تاخیر متوقع ہے۔ اس تاخیر کی بنیادی وجوہات بتاتے ہوئے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے نامکمل نتائج کی موصولی بھی وجہ تاخیر ہے۔ یہ سننا تھا کہ دوست Furious عمل سے دوچار ہو گیا اور یوں اس نے ’’کافی‘‘ کا ایک اور گھونٹ پیتے ہوئے مجھے اچھا خاصا سیاسی لیکچر دے ڈالا۔ 
وہ گویا ہوا‘ پلیز‘ مجھے غلط مت سمجھنا تمہاری میری محکمانہ دوستی بھی ہے‘ تم کالم نگار ہی نہیں ایک اچھے Interpreter بھی ہو‘ یہاں کے جمہوری سسٹم کو بھی خوب سمجھتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ جمہوری رویوں میں اصولوں کو سب سے زیادہ اہمیت اس لئے بھی دی جاتی ہے کہ جمہوریت ایک ایسا سیاسی سسٹم ہے جس میں منتخب نمائندوں کے دیئے عوامی فیصلوں سے ہی کسی ملک  کی خوشحالی اور معاشی و اقتصادی استحکام کی راہیں کھلتی ہیں۔ ووٹ اور ’’ووٹ کی گنتی‘‘ ہی جمہوری استحکام کے وہ اہم ستون ہیں جن کے بغیر جمہوریت اپنے پائوں پر ہرگز کھڑی نہیں ہو سکتی۔ مجھے کہنے دیں کہ آپ کے ہاں 76 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک قوم میں وہ سیاسی شعور بیدار نہیں ہو سکا جس سے قومیں حقیقی جمہوری منزل کا تعین کرتی ہیں۔ اسٹیفن نے قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
 انتخابی نتائج میں پائی جانیوالی یہ غیرضروری تاخیر اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ ملک کے بیشتر حلقوں میں قائم الیکشن ہالز میں کسی نہ کسی حوالے سے  Vote Rigging ضرور ہوئی ہے۔ گھڑی کی جانب نظر دوڑائی تو رات کے 9 بجنے والے تھے جبکہ پاکستان میں صبح کے دو بج رہے تھے مگر انتخابی نتائج بدستور تاخیر کا شکار تھے۔ قائد تحریک انصاف جنہیں مجموعی طور پر 34 برس قید بامشقت کی سزا سنائی جا چکی ہے‘ آپ انکے بارے میں انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں جو حالات آپ نے بیان کئے ایسی صورت میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب امیدوار دنیا بھر میں اپنے قائد کی مقبولیت منوا سکیں گے؟ میں نے اسٹیفن سے سوال کیا۔ بلاشبہ عالمی میڈیا بشمول برطانوی میڈیا پہلے ہی یہ انکشاف کر چکا ہے کہ ڈھیروں مشکلات اور جیلوں میں بند تحریک انصاف کی قیادت کے باوجود عمران خان کے حمایتی ووٹروں اور سپورٹروں کی تعداد ریکارڈ توڑ ہو گی۔ نتائج میں دانستہ طور پر تاخیر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ برطانوی فارن سیکرٹری اور سابق برطانوی وزیراعظم لارڈ ڈیوڈ کیمرون سمیت یورپی یونین مبصرین‘ کامن ویلتھ مبصرین اور امریکہ اس بات کے حامی ہیں کہ فوری انتخابی نتائج میں تاخیر اور کرپشن اور جعلی ووٹوں کے الزامات کی فوری تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ ان انتخابات پر عوام کی اکثریت کا اعتماد بحال ہو سکے۔ موسم سرد ہے مجھے آپ سے اجازت بھی لینا ہے مگر ایک بات واضح کر دوں کہ ایسے انتخابات جن میں واحد پارٹی کی اکثریت نہ ہو بالعموم Parliment  Hung کی نذر ہو جاتے ہیں اور ایسی حکومتوں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ برطانیہ کی کولیشن حکومت کی مثال آپکے سامنے ہے۔ اسٹیفن نے اپنے اوورکوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا اور اجازت لے لی۔ 
حکومت کون بنائے گا‘ مخلوط حکومت کے قیام کی صورت میں شامل پارٹیاں کن عہدوں‘ وزارتوں اور کن مراعات کا تقاضا کریں گی‘ نئی حکومت واقعی عوام کے بنیادی مسائل ‘ مہنگائی‘ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ بے روزگاری اور پاکستان پر 93 سو ارب روپے کا قرضہ اتار پائے گی؟ یہ ہیں وہ سوالات جو ووٹر ابھی سے پوچھنے لگا ہے کہ کولیشن حکومت میں اصل منافع چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے کامیاب امیدواروں کو ہوتا ہے۔ اسی لئے تو کہا ہے کہ کھیڈ مک گئی۔

ای پیپر دی نیشن