حکومت سازی کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے 

تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے وفاق میں آئندہ مخلوط حکومت بنانے اور وزارت عظمیٰ کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر سیاسی رہنمائوں کی اہم بیٹھک ہوئی، جس میں آصف زرداری، شہباز شریف، خالد مقبول صدیقی، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، گورنر سندھ اورعلیم خان سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے شرکت کی۔ ملاقات میں ملکی سیاسی صورت حال اور آئندہ حکومت سازی پر بات کی گئی۔ جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے وفاق میں ن لیگ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ دریں اثناء مسلم لیگ ن کی طرف سے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ اور مریم نواز شریف کو وزارت اعلیٰ پنجاب کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔
8 فروری کے انتخابات میں کسی پارٹی کو واضح مینڈیٹ نہیں ملا چنانچہ کوئی بھی ایک پارٹی دوسری پارٹی یا پارٹیوں کو شامل کئے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے92 آزاد امیدواروں نے جیتی ہیں۔مسلم لیگ نون 79 جبکہ پیپلز پارٹی کو 54 نشستیں ملی ہیں۔ہر پارٹی کو سوائے تحریک انصاف کے خصوصی نشستیں  اس کی حاصل کردہ نشستوں کے تناسب سے ملیں گی۔تحریک انصاف خصوصی نشستوں کی اس لئے حقدار نہیں ہے کہ اس کے پاس انتخابات کے دوران انتخابی نشان نہیں تھا۔حکومت بنانے کے لیے خصوصی نشستوں کو شمار کیے بغیر 134 نشستوں کی ضرورت ہے۔گو تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس نے فارم 45 کے مطابق 170 سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں لیکن یہ دعوے مفروضوں پر مبنی ہیں جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ تحریک انصاف کے وہ امیدوار جو جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق ہار گئے ہیں اور مجاز فورمز سے رجوع کر رہے ہیں. وہاں سے حتمی فیصلہ آنے تک صورتحال وہی رہے گی جو اب سامنے ہے اس کے مطابق بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے آزاد ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ان ارکان کے بل بوتے پر تحریک انصاف اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا اسے کسی دوسری پارٹی سے اتحاد کی ضرورت ہے لیکن تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ نہ صرف اتحاد نہیں کریں گے بلکہ ان کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو اور مذاکرات بھی نہیں کیے جائیں گے۔زمینی حقائق کی رو سے تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہٰذا نیا اتحاد حکومت بناتا ہوا نظر آرہا ہے۔مسلم لیگ نون کے نامزد وزیراعظم  شہباز شریف جن کی حمایت پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، بی اے پی اور ق لیگ کی طرف سے کی گئی ہے۔ان کے قائدین نے پہلے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اور بعد ازاں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ جو لوگ یہاں ہیں وہ دو تہائی اکثریت میں ہیں، پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار اگر اکثریت لے آئیں تو حکومت بنا لیں، ہم سب ان کا احترام کریں گے۔ جمہوریت اور آئین کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے قبول کریں گے، اگر وہ نہیں دکھا پاتے تو ہمارے پاس ہر صوبے سے اکثریت موجود ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ جتنا زیادہ مشکل دکھائی دے رہا تھا اتنا ہی زیادہ آسان ثابت ہوا ہے۔تحریک انصاف کے بعد بڑی پارٹیوں کی طرف سے بہتر جمہوری رویئے سامنے آئے۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں اتحاد نہ کرتیں تومعاملات دوبارہ انتخابات  کی طرف جا سکتے تھے۔بلاول  کی طرف سے پریس کانفرنس میں جہاں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا وہیں انہوں نے یہ بھی واضح کیا  انکی پارٹی مسلم لیگ کوسپورٹ کرے گی لیکن وزارتیں نہیں لے گی۔تاہم بعد میں آصف علی زرداری کی طرف سے حکومت کا حصہ بننے کا اعلان کیا گیا۔اس پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری کا کچھ آئینی عہدوں کا تقاضا معنی خیز تھا۔انہوں نے آصف علی زرداری کے لیے صدارت اور پیپلز پارٹی کیلئے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے عہدوں کی خواہش کا اظہار ہوا۔ پنجاب اور سندھ کی گورنری کا مطالبہ بھی ان کی طرف سے سامنے آسکتا ہے۔یہ آئینی عہدے ایک پارٹی کے پاس آ جاتے ہیں تو پاکستان کی  مروجہ سیاست کے پیش نظر جمہوریت ایک پارٹی کے رحم و کرم پر ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں ایک عرصے سے کشیدگی چلی آرہی ہے ایسی کشیدگی کے بھیانک نتائج قوم 90ء کی دہائی میں دیکھ چکی ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی سیاسی مخالفت دشمنی اور ذاتیات تک چلی گئی تھی۔انہوں نے پھر سیاسی بصیرت دکھائی اور ایک پیج پر آ گئیں۔ آج وہی کشیدگی پی ٹی ائی کی ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ نظر آرہی ہے۔عمران خان کی طرف سے ایک بار پھر غیر لچکدار روییکا اظہار کیا گیا ہے۔انہوں نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کے رابطے اور مذاکرات سے انکار کیا ہے۔شہباز شریف کی طرف سے عمران خان کے آزاد امیدواروں کو ان کی اکثریت کے پیش نظر پہلے حکومت سازی کی دعوت دی گئی  جبکہ آصف علی زرداری کی طرف سے بھی ان کی جانب ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے ہاتھ بڑھایا گیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے گھر ہونے والیاجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ملک کو مسائل سے نکالیں گے، ہمارا معاشی اور دفاعی ایجنڈا مشترکہ ہونا چاہیے۔ ہمیں ملکر مصالحت کو اپنانا چاہیے جس میں پی ٹی آئی بھی شریک ہو۔
موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے تسلسل اور تیزی میں اضافہ ہو رہا ہے ایک وسیع تر قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف سمیت ساری پارٹیوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا چاہیے۔ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال کے مخدوش ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے تحریک انصاف  اپنے رویے میں لچک لا کرکلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ملکی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی و معاشی استحکام کی خاطر سے ہرپارٹی کی لیڈر شپ کو انا کے گھوڑے سے اترنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن