تیرا غم میرا غم، کہیں میرے کہیں تیرے ووٹ کم!!!!

حکومت کوئی بھی بنائے یہ بات بعد کی ہے ابھی تو بہت دلچسپ صورتحال ہے کیونکہ سب احتجاج کر رہے ہیں، ہارنے والوں کا غم تو ہے کہ وہ ہار گئے جیتنے والے بھی غمگین ہیں کیونکہ جو جیت وہ توقع کر رہے تھے وہ نہیں مل سکی، ہارنے والے بھی احتجاج کا اعلان کر رہے ہیں اور جیتنے والے بھی احتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جو انتخابی نتائج تسلیم کرے اور آگے بڑھنے کی بات کرے سب ناخوش ہیں، کوئی ایک سیٹ ڈھونڈ رہا ہے تو کوئی ایک سو ستر سیٹیں ڈھونڈ رہا ہے، اے این پی احتجاج کر رہی ہے، جماعت اسلامی بھی احتجاج میں ہے، پاکستان تحریک انصاف بھی نتائج سے خوش نہیں، مسلم لیگ بھی انتخابی نتائج کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتی کیونکہ وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ انہیں بھی ہرایا گیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن نے الیکشن کمشن پر الزامات عائد کر دئیے ہیں یعنی جمعیت علماء اسلام بھی عام انتخابات کے نتائج سے خوش نہیں سو سب کے سب نتائج سے ناخوش ہیں لیکن مزے کی بات ہے حکومت بھی سب ہی بنانا چاہتے ہیں۔ غم سب کے ایک ہی ہیں۔ ہارے ہوں یا جیتے ہوں۔ گذشتہ روز مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کر کے سب کو حیران کیا ہے۔ سب ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پر گراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ دیکھیں الزامات کا یہ سلسلہ کہاں رکتا ہے۔ ویسے تو سیاسی جماعتیں میچورٹی کا دعوی کرتی رہتی ہیں لیکن آٹھ فروری سے آج تک پیدا ہونے حالات نے ثابت کیا ہے کہ میچورٹی بھی بیانات کی حد تک ہے۔
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ "پنجاب میں نقصان مہنگائی اور بانی پی ٹی آئی کی سزاؤں پر ہمدردی سے ہوا ہے۔ نواز شریف کا خیال تھا اور ہے کہ سادہ اکثریت نہ ملے تو دوسروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانی چاہیے۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ نواز شریف کریں گے تاہم پارلیمانی پارٹی انہیں مشورہ دے سکتی ہے۔" رانا صاحب الیکشن ہار چکے ہیں انہیں اپنی شکست کا غم اور دکھ بھی ہو گا اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ حالات کا درست جائزہ لینے میں کامیاب نہ ہو پا رہے ہوں۔ اگر آج بھی وہ یہ سمجھیں گے کہ مسلم لیگ ن کو صرف مہنگائی اور عمران خان کو مختلف مقدمات میں سنائی جانے والی سزاؤں کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا ہے تو وہ غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ ایک پہلو ضرور ہو سکتا ہے جس وجہ سے ووٹر ان کی جماعت کے خلاف ہوا ہے لیکن یہ سب سے بڑی وجہ ہرگز نہیں ہے۔ سب سے بڑی وجہ مزاحمت کی سیاست ہے۔ پنجاب کا ووٹر بغیر کچھ سوچے سمجھے مزاحمت کرنے والوں کی حمایت کرتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، بھلے وہ مزاحمت غلط ہو یا درست لوگ یہ نہیں دیکھتے بس جو جذباتی نعرے لگائے، لوگوں میں احساس محرومی کو ابھارے اور انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو حقوق غصب کر کے بیٹھا ہے لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے گذشتہ بارہ پندرہ برسوں میں یہ کام بڑی دلیری سے کیا ہے، انہیں ہر طرف سے تعاون حاصل تھا اور انہوں نے اس کا بھرپور انداز میں فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ آج بھی اگر مسلم لیگ کی اعلی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ انہیں بانی پی ٹی آئی کی سزاؤں اور مہنگائی نے نقصان پہنچایا ہے تو یہ غلط سوچ ہے، انہیں درحقیقت نقصان واضح موقف نہ اپنانے کی وجہ سے ہوا ہے، انہیں درحقیقت نقصان دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت تیار نہ کرنے سے ہوا ہے، انہیں یہ احساس ہی نہ ہو سکا کہ نوجوان نسل کیا سوچ رہی ہے، نوجوان نسل کے ذہنوں میں آپ کے حوالے سے کیا خدشات ہیں، وہ کن سوالوں کا جواب چاہتے ہیں، وہ کیوں سیاست میں آپ کے دوہرے معیار سے ناخوش ہیں اور کیا چاہتے ہیں، ن لیگ تو اس حد تک خواب غفلت میں ہے کہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کے حقائق اور اعداد و شمار بھی نوجوان نسل کے سامنے بیان کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی موٹر ویز پر سوال اٹھاتی ہے، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر سوال اٹھاتی ہے تو ن لیگ کی قیادت میں اتنا حوصلہ اور جرات کیوں نہیں کہ یہ تعلیمی اداروں میں جائیں نوجوان نسل سے بات کریں، ان کے کڑوے سوالوں کا جواب دیں، ہوم ورک کریں، ترقیاتی منصوبوں پر نوجوانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے خدشات دور کرنے پر کام کریں، لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش تو شروع کریں ، یہ میاں نواز شریف سے شروع ہو کر وہیں پر ختم ہو جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں حمزہ شہباز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا تو اب مریم نواز شریف کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ مریم نواز پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی میں جائیں اور وہ براہ راست وزیر اعلیٰ بنیں گی۔ اگر جمہوریت بہترین انتقام ہے تو واقعی یہ بہترین انتقام ہے۔ موروثی سیاست سے لوگ تنگ ہیں، اور یہاں ن لیگ اس سے باہر ہی نکلنا نہیں چاہتی۔ کیا دہائیوں کی عملی سیاست کے بعد بھی پنجاب میں کوئی ایسا رکن اسمبلی تیار نہیں کیا جا سکا جو صوبے کا وزیر اعلیٰ بن سکتا ہو، کیا سوالیہ نشان نہیں ہے۔ یہ مسلم لیگ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے، جماعت اپنے ووٹرز اور حمایت کرنے والوں سے قائم رہتی ہے اگر ووٹرز ہی نہ رہیں تو جماعت کیسے باقی رہے گی۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں یہ مسئلہ ہے کہ متبادل قیادت کے بجائے سیاسی جماعت کو خاندان میں گھمانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 
 اگر رانا ثناء اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کو مہنگائی کی وجہ سے نقصان ہوا ہے تو یہ ضرور یاد رکھیں کہ مہنگائی تو تحریک انصاف کے دور میں بھی تھی پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران اس میں اضافہ ہی ہوا تھا چند ماہ میں لوگوں کی بڑی تعداد اس انداز میں نفرت کا اظہار نہیں کرتی، لوگوں کی طرف سے عدم اعتماد درحقیقت ناکام میڈیا پالیسی، ناکام سیاسی حکمت عملی، نوجوانوں کے پیچھے دھکیلنے اور ایک مضبوط سیاسی جماعت کو اپنے گھر تک محدود رکھنے کا نتیجہ ہے، آپ اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، داماد اور دیگر رشتہ داروں کو ٹکٹیں دیتے رہیں گے تو پھر لوگوں سے یہ گلہ نہ کریں کہ انہوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا۔ اس صورت حال میں سب سے بڑی خامی اس نظام کی ہے جہاں ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر دیا ہی نہیں جاتا۔ یہاں ووٹ نفرت اور تذلیل کی بنیاد پر ملتا ہے۔ ن لیگ کے خلاف نفرت پھیلائی گئی اور یہ سارے مل کر بھی اس نفرت کا مقابلہ نہیں کر سکے نتیجہ یہ ہے کہ ووٹر نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ ریاست کے لیے سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ نفرت کے یہ بڑھتے ہوئے جذبات کو کم کیسے کرنا ہے، کیونکہ نفرت کی آگ اگر نہیں بجھے گی تو پھر نقصان تو ہونا ہے۔ جھوٹی خبریں، جھوٹا بیانیہ، معصوم ذہنوں میں انتشار ریاست کے لیے یہ چیلنجز ہر قسم کے سیاسی و معاشی بحران سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کوئی جہاں بھی ہے اسے کچھ بھی لکھنے بولنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے لیکن آزادی آپ پر کچھ پابندیاں بھی عائد کرتی ہے اگر آپ اس پر پابند نہیں رہتے تو پھر آزادی کو سب سے بڑا خطرہ اندر سے ہی لاحق ہوتا ہے۔ ان حالات میں آزادی کے سب سے بڑے محافظ خود ہیں۔ 
 آج بہت سے لوگوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر بھی اعتراض ہو رہا ہے۔ جہاں تک تعلق وفاداریاں تبدیل کرنے کا ہے تو یہ یاد رکھیں اگر کوئی ملک کے ساتھ وفادار نہیں تو اس کی کسی جماعت یا شخصیت کے ساتھ وفاداری معنی نہیں رکھتی، اس وقت ملک سے انتشار ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے انتخابات میں ناکامی کے بعد بہت سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے ناصرف شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا بلکہ لطیف کھوسہ کے لیے اچھے الفاظ بھی استعمال کیے، بعد میں بھی خواجہ سعد رفیق نے اتحاد قائم کرنے پر زور دیا ہے۔ ہر جیتنے والے اور ہر ناکام ہونے والے کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو کامیابی کے بعد مغرور اور ناکامی کے بعد انتقام کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے تحمل مزاجی، برداشت اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے کام کرنا ہے، غلطیوں سے سیکھیں ورنہ ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر انتخابات کے بعد ایک اور انتخاب کا شور بلند ہو، ہر انتخاب کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور ہو، ایسے ملک نہیں چلتے، اپنی من پسند حکومت کو جمہوریت کا نام دینے کے بجائے ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے کام کریں۔ نوجوانوں کو متحد کریں انہیں تمیز سکھائیں ورنہ آگ جلتی رہی تو سب کو جلائے گی۔
آخر میں خلیل الرحمٰن اعظمی کا کلام
وہ دن کب کے بیت گئے جب دل سپنوں سے بہلتا تھا 
گھر  میں کوئی آئے کہ نہ آئے ایک دیا سا جلتا تھا
یاد آتی ہیں وہ شامیں جب رسم و راہ کسی سے تھی
ہم بے چین سے ہونے لگتے جوں جوں یہ دن ڈھلتا تھا 
ان گلیوں میں اب سنتے ہیں راتیں بھی سو جاتی ہیں 
جن گلیوں میں ہم پھرتے تھے جہاں وہ چاند نکلتا تھا 
وہ مانوس سلونے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں 
جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں ملتا تھا 
کوئی پرانا ساتھی بھی شاید ہی ہمیں پہچان سکے 
ورنہ اک دن شہرِ وفا میں اپنا سکہ چلتا تھا 
شاید اپنا پیار ہی جھوٹا تھا ورنہ دستور یہ تھا
مٹی میں جو بیج بھی بویا جاتا تھا وہ پھلتا تھا
اب کے ایسے پت جھڑ آئی سوکھ گئی ڈالی ڈالی
ایسے ڈھنگ سے کوئی پودا کب پوشاک بدلتا  تھا 
آج شب غم راس آئے تو اپنی بات بھی رہ جائے 
اندھیارے کی کوکھ میں یوں تو پہلے سورج پلٹا تھا 
دنیا بھر کی رام کہانی کس کس ڈھنگ سے کہہ ڈالی 
اپنی کہنے جب بیٹھے تو اک اک لفظ پگھلتا تھا

ای پیپر دی نیشن