زرداری بشمول شہباز ان…نواز آئوٹ 

Feb 15, 2024

عبداللہ طارق سہیل

مخلوط یا قومی حکومت کا اعلان ہو گیا۔ زرداری ان، نواز شریف آئوٹ یعنی مائنس نواز شریف کے اس فارمولے پر عمل ہو گیا جس کی طرف اشارے الیکشن سے قبل کچھ باخبر لوگ کر رہے تھے لیکن کوئی ان پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ الیکشن کے نتائج آئے اور خلاف امید مسلم لیگ ن سادہ اکثریت سے خاصا پیچھے رہ گئی تو ان اشاروں کو تقویت ملتی نظر آئی اور بالآخر کل کے اعلان سے منظر واضح ہو گیا۔ زرداری بشمول شہباز ان ، نواز شریف آئوٹ۔ 
زرداری صدر ہوں گے، حکومت کو سمت وہی دیں گے، شہباز شریف حسب سابق تصویریں کھنچوانے اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ چلانے کی وڈیوز بنانے میں مصروف رہیں گے، فارغ وقت میں دوسرے ممالک کے تفریحی دوروں پر نکل جایا کریں گے۔ ایسا میں نہیں کہہ رہا، کسی اور نے یہ بات کی، جو یہاں دہرا دی۔ میرا آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ اس مذکورہ کسی اور کے علاوہ ایک مزید کسی اور کا فون بھی مجھے آیا اور پوچھا کیا شہبا ز شریف وزارت عظمیٰ اس بار بھی ویسے ہی چلائیں گے جیسے انہوں نے 16 ماھی حکومت میں چلائی تھی۔ عرض کیا بھائی یہ تو علم غیب کا سوال ہے، کیا عرض کر سکتا ہوں۔ ایک کارکن تو سخت دکھی ہو رہا تھا کہ نواز شریف کو اپنوں نے ان سے مل کر جو اپنے نہیں تھے نواز شریف کو مائنس کر دیا۔ اسے تسلّی دینے کیلئے کہا کہ چلو مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن گئیں، کہنے لگا پتہ نہیں، شہباز شریف انہیں چلنے دیں گے یا نہیں، انہوں نے تو ان کی سیاست کا راستہ بھی روکا تھا۔ کہا بھئی یہ تمہاری پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، اچھے کی امید رکھو۔ 
__________
نواز شریف مائنس تو ہو گئے لیکن اس طرح سے نہیں جیسے خیال کئے جا رہے تھے یا جیسی کچھ احباب کی تمنا تھی۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں، پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، میدان کے اندر بھی ہیں ۔ جلسے کر سکتے ہیں پریس کانفرنسیں بھی، پارٹی امور بھی چلا سکتے ہیں۔ بس وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ پارٹی کے کارکن یقین رکھتے تھے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بن کر ریکارڈ قائم کریں گے، یہ یقین ٹوٹ گیا تو صدمے میں آ گئے لیکن ریکارڈ تو پھر بھی وہ بنا چکے، تین بار وزیراعظم بن چکے، کوئی اور بنا؟۔ اور چوتھی بار سیاست میں بھی واپس آئے۔ 
نئی حکومت کو اقتصادی بحالی کا کام دیا گیا، لیکن یہ کام نواز شریف بہتر کر سکتے تھے۔ وہ واحد پاکستانی حکمران ہیں جس کے دور میں ترقیاتی منصوبے ، بڑے بڑے منصوبے لگے، ملک کا انفراسٹرکچر انہی نے بنایا۔ یوں کہیئے کہ ملک میں جتنی تھوڑی بہت ترقی ہوئی، انہی کے دور میں ہوئی۔ ان کا سیاسی اثاثہ 16 ماھی دور حکومت میں متاثر ہوا۔ صرف شہباز شریف ہی اس کے ذمہ دار نہیں، خود نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار نے بھی تباہ کن فیصلے بڑے شوق، چاہت اور لگن سے کئے۔ 
__________
دھوم تو لندن پلان کی تھی جو نواز شریف کی لندن والی رہائش گاہ میں بنا۔ لندن پلان کا یہ فسانہ تو مائنس نواز شریف ہونے سے جھوٹ نکلا۔ فسانہ ساز گویا یہ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف نے اپنی لندن والی رہائش گاہ میں نواز شریف کو مائنس کرنے کا پلان بنایا۔ 
شاید انہوں نے پنڈی کا نام بدل کر لندن رکھ دیا ہو، کوڈ ورڈ استعمال کیا ہو۔ پنڈی کا نام بدلنا ہی تھا تو پنڈی بروزن لندن رکھ دیتے اور حساب سے پنڈن پلان کا نام دے دیتے۔ 
__________
پاکستان کے مایہ ناز اور مفرور پراپرٹی ٹائیکون نے دبئی میں بیٹھ کر پاکستان کے چھ سات ٹی وی چینلز کا نیٹ ورک الیکشن کی رات خوب استعمال کیا اور فضا بنا دی کہ پی ٹی الیکشن سویپ کر گئی ہے، سب کا صفایا پھیر دیا ہے۔ اب یہ فضا قدرے ٹوٹ گئی ہے لیکن تاثر اب بھی یہی ہے کہ الیکشن کا میدان پی ٹی آئی نے جیت لیا۔ پچھلی بار سے بڑھ کر فتح حاصل کی۔ 
کیا واقعی؟۔ پچھلی بار اس نے قومی اسمبلی میں 110 سے زیادہ سیٹس جیتی تھیں، اس بار 92 تک رک گئی۔ یہ پچھلی بار سے بڑھ کر فتح ہے۔ پچھلی بار اس کی پنجاب پر بھی حکومت تھی، اب وہ آزاد ملا کر بھی حکومت نہیں بنا سکتی، مسلم لیگ سادہ اکثریت سے کہیں زیادہ نمبر لے چکی ہے۔ پچھلی بار بلوچستان اس کے زیر اثر تھا، اب نہیں ہے۔ 
مسلم لیگ کے بارے میں پکّا طے کر لیا گیا کہ وہ ہار گئی ہے۔ لیکن اس نے پچھلی بار سے زیادہ سیٹس لیں، پنجاب میں بھی غلبہ کر لیا اور بلوچستان میں بھی دس گیارہ سیٹس لے لیں۔ 
خبر، اس سے بھی زیادہ دلچسپ معاملہ حاصل کردہ ووٹوں کا ہے۔ پی ٹی آئی نے گزشتہ انتخابات کی نسبت اس بار دو لاکھ ووٹ کم لئے، مسلم لیگ نے اس کے برعکس پچھلی بار کی نسبت تین لاکھ ووٹ زیادہ لئے۔ 
لیکن یہ معاملہ بھی کم دلچسپ ہے، ایک اور معاملہ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ پی ٹی آئی نے، رپورٹ کے مطابق ، ایک کروڑ 69 لاکھ ووٹ لئے۔ میڈیا اور تجزیہ نگاروں کا قومی اتفاق رائے یہ تھا کہ اس بار اڑھائی کروڑ نوجوان ووٹروں کا ووٹر لسٹ میں اضافہ ہوا ہے اور یہ سارے کے سارے اگر نہ سہی تو ان کی بھاری اکثریت پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے گی۔ 
چلئے بھاری اکثریت کو ازراہ لحاظ سادہ اکثریت مان لیتے ہیں تو اڑھائی کروڑ ووٹروں کی سادہ اکثریت، کم از کم، ایک کروڑ 30 لاکھ تو بنتی ہے۔ یوں پی ٹی آئی کو اس بار کم از کم __ یعنی کہ کم سے کم__ تین کروڑ ووٹ پڑنے چاہئیں تھے۔ لیکن اسے تو ملے ایک کرڑو 69 لاکھ، یعنی پچھلی گنتی سے بھی کم تین لاکھ۔ 
اور ایک معاملہ اور بھی دلچسپ ہے۔ یہ کہ کیا واقعی پی ٹی آئی کو ایک کروڑ 69 لاکھ ووٹ پڑے؟۔ 
اس لئے کہ اسے پڑنے والے ووٹوں کا ’’ٹوٹل‘‘ تمام آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تصور کرتے ہوئے کہا گیا تھا جبکہ ایسا نہیں تھا۔ بارہ آزاد امیدوار تو وہ تھے جو مسلم لیگ کے تھے، ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد کھڑے ہو گئے اور جیتے۔ پھر کئی اور آزاد ایسے تھے جو جیت تو نہ سکے لیکن انہیں ووٹ تو پڑے۔ 
یہ سارے ووٹ منہا کر لیجئے اور باقی ماندہ میں سے ’’پھر نوجوان ووٹروں کی بھاری اکثریت‘‘ کو تلاش کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اور جو نتیجہ نکلے، اس کی ایک ایک کاپی قومی اتفاق رائے والے میڈیا پرسنز اور تجزیہ نگاروں کو ارسال فرما دیجئے۔ 

مزیدخبریں