عمران خان نے حکومت سازی کی بس مِس کیوں کی؟

انتخابی نتائج آنے کے فوری بعد عمران مخالف جماعتیں ہکا بکا رہ گئیں۔ پیپلز پارٹی کو اس انتخاب سے سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے سے خاطر خواہ نشستیں ملنے کی امید نہیں تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اس کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے تقریباََ ہر بڑے صوبے کے کسی شہر یا قصبے میں جاتے رہے۔ اپنی توانائی کو یوں انہوں نے آئندہ انتخاب میں سرمایہ کاری کی طرح خرچ کیا۔ بنیادی پریشانی نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ (نون) کو لاحق ہوئی۔ وہ اپنی توقع کے مطابق نتائج حاصل نہیں کرپائی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نتائج آجانے کے بعد سنجیدگی سے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے ان اسباب کا سراغ لگایا جاتا جو مسلم لیگ (نون) کی مایوسی کا سبب ہوئے۔ ہمیں مگر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی عادت ہے۔اسی باعث مسلم لیگ کے کئی سرکردہ رہنما سرگوشیوں میں دعویٰ کرتے رہے کہ ان کے ساتھ پنجابی والا ’’ہتھ‘‘ ہوگیا ہے۔اس جماعت کے چند ’’انقلابیوں‘‘ نے نہایت محنت سے ’’کھرا‘‘ یہ بھی نکالا کہ جاوید لطیف جیسے ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ لوگوں کو قومی اسمبلی میں آنے نہیں دیا گیا۔خواجہ سعد رفیق کے بارے میں ایسی ہی داستان گھڑنے کی کوشش ہوئی۔ سعد رفیق مگر ایک بے لوث سیاسی کارکن کے فرزند ہیں۔ لاہور کی گلیوں میں اٹھے اور اس شہر کے مزاج آشنا۔ اپنی جبلت میں شامل سیاسی بصیرت کی وجہ سے کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ سازشی کہانیاں اس کی وجہ سے وہیں دم توڑ گئیں۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری گواہ ہیں کہ میں 8فروری کے انتخاب کے نتیجے میں مسلم لیگ (نون) کو 90سے زیادہ نشستیں میسر ہوتی نہیں دیکھ رہا تھا۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ملے ووٹ اگرچہ اندازے سے کہیں زیادہ ’’ثابت‘‘ ہوئے۔لوگوں سے گھلتے ملتے علم ہوگیا تھا کہ عوام کی کماحقہ تعداد تحریک انصاف نہیں بلکہ ’’قیدی نمبر804‘‘ کو ووٹ دینا چا ہتی ہے۔اس کی جانب سے کھڑا ہوا ’’کھمبا‘‘ بھی انہیں قبول تھا۔انتخابی حرکیات کا طالب علم ہوتے ہوئے میری پریشانی مگر یہ رہی کہ بلے کے انتخابی نشان سے محروم تحریک انصاف کے امیدوار اپنی شناخت کیسے اجاگر کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ذہن میں رہی کہ ’’ووٹ بھگتانے‘‘ کے لئے عاشقانِ عمران کو گھروں سے باہر کون نکالے گا۔اس پہلو پر توجہ دیتے ہوئے میں اس حقیقت کونظرانداز کرگیا کہ ملک بھر کے نچلے طبقات بھی اب موبائل فون اور موٹرسائیکل جیسی سواریوں کے مالک ہیں۔اس کے علاوہ آمدورفت کیلئے موٹرسائیکلیں کرائے پر بھی دستیاب ہیں۔ تحریک انصاف نے کمال مہارت سے موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حامیوں کی اکثریت کو آگاہ کردیا کہ ان کے حلقے میں عمران خان نے کونسے امیدوار کونامزد کیا ہے۔اس کا انتخابی نشان بھی مسلسل یاد دلایا گیا۔ اس کے علاوہ بیلٹ پیپر پر مہر لگانے اور اسے تہہ کرکے صندوق میں ڈالنے کا صحیح طریقہ بھی سوشل میڈیاایپس کے ذریعے گھر گھر پہنچادیا۔
تحریک انصاف کی محنت بالآخر رنگ لائی۔لوگ بھاری بھر کم تعداد میں اپنے گھروں سے باہر نکلے اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دئے۔ تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں خاص طورپر مسلم لیگ (نون) نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسی بے تابی ہرگز نہیں دکھائی۔ روایتی انداز پر انحصار کرتے رہے۔ اس گماں میں مبتلا رہی کہ ان کے ’’پکے ووٹ‘‘ ازخود گھروں سے نکلیں گے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سے مایوس اور ناراض ہوجانے کے باوجود وہ پرامید تھے کہ نواز شریف اگر وزیر اعظم بن گئے تو پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیں گے۔یہ پیغام بھی لیکن موثر انداز میں لوگوں تک پہنچایا نہیں گیا۔لاہور میں سعد رفیق اور روحیل اصغر شیخ جیسے لوگوں کی شکست کا اصل سبب ’’ساڈی گل ہوگئی اے‘‘ والا رویہ تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگ نون کا ’’پکا ووٹر‘‘ روایتی ’’گج وج‘‘ کے ساتھ گھروں سے باہر نہیں آیا۔ شورشرابہ تحریک انصاف کے ووٹرنے بھی نہیں مچایا۔ محتاط انداز میں گھروں سے نکل کر خاموشی سے اپنی ترجیح کے امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈال کر گھر چلے گئے۔
عاشقان عمران خان نے اپنا فرض ادا کردیاہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو واضح اکثریت نہیں ملی ہے۔ دھاندلی کے دعوے تسلیم کریں تب بھی تحریک انصاف 25سے زیادہ ایسے حلقوں کی نشاندہی نہیں کرسکتی جہاں آخری لمحات میں ہوئی دھاندلی کے امکانات کو یکسر مسترد کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ یہ حقیقت مگر تحریک انصاف کا بدترین دشمن اور ناقد بھی تسلیم کرنے کو مجبور ہے کہ تمام تررکاوٹوں کے باوجود 90کے قریب اراکین ’’آزاد‘‘ حیثیت میں سہی لیکن قیدی نمبر804کی شفقت کی بدولت قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ اپنے تئیں یہ افراد ’’واحد اکثریتی گروپ‘‘ ہیں۔پیر کے دن سے میں اس کالم کے ذریعے مسلسل فریاد کرتا رہا کہ ان نو منتخب اراکین اسمبلی کو جلد از جلد اسلام آباد کسی ایک مقام پر جمع ہونا چاہیے۔ اپنی تعداد گنوانے کے بعد ’’واحد اکثریتی گروپ‘‘ وزیراعظم کے عہدے کے لئے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کرسکتا تھا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد اس کی حمایت کے حصول کے لئے دوسری جماعتوں سے رابطوں کی بات ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ ’’واحد اکثریتی گروپ‘‘ پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی رشتے استوار کرسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے بانی اور قائد نے مگر منگل کی صبح تحریک انصاف کو مسلم لیگ (نون) ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے دور رہنے کا حکم دیا۔ وہ حکم جاری ہوا تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ (نون) کے امیدوار کی حمایت کو مجبور ہوگئی۔ عمران خان نے گویا حکومت سازی کی ’’بس مس‘‘ کردی ہے۔ دل سے غالباََ وہ چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم (2) دِکھتی حکومت کا قیام عمل میں لائے اور وہ دھرنوں وغیرہ کے ذریعے اسے استحکام نصیب ہونے نہ دیں۔ جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین سے تعاون کی بات بھی میری دانست میں تحریک انصاف حکومت سازی کی خاطر نہیں بلکہ آئندہ حکومت کے قیام میں رکاوٹیں ڈالنے کے علاوہ اس کے استحکام کو ناممکن بنانے کے ارادے سے کررہی ہے۔ فی ا لوقت میں اس قابل نہیں کہ جس حکمت عملی کی بابت سوچ رہا ہوں وہ حقیقتاََ اپنالی گئی ہے یا نہیں۔بات ذرا واضح ہوجائے تب ہی اس کے ممکنہ نتائج پر غور ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن