وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز غزہ کی پٹی میں بگڑتے ہوئے انسانی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر جو بائیڈن نے امریکہ میں مقیم فلسطینیوں کو اگلے 18 ماہ کے لیے ملک بدری سے بچانے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ اقدام اندازے کے مطابق 6,000 فلسطینیوں کو "مؤخر جبری روانگی" دیتا ہے۔ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ "اسرائیل کے خلاف حماس کے 7 اکتوبر کے خوفناک دہشت گردانہ حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کے فوجی ردِعمل کے بعد غزہ میں انسانی حالات کافی خراب ہو گئے ہیں۔"سلیوان نے کہا بائیڈن کے اس اقدام سے امریکہ میں فلسطینیوں کو "ایک عارضی محفوظ پناہ گاہ" ملے گی۔ اور مزید کہا، جو بھی رضاکارانہ طور پر فلسطینی علاقوں میں واپس آتا ہے وہ تحفظ سے محروم ہو جائے گا۔چار ماہ سے زیادہ کی جنگ کے بعد بائیڈن کو غزہ میں فلسطینیوں کے تحفظ اور انکلیو میں امداد کی ترسیل کے لیے مزید اقدامات کرنے کے دباؤ کا سامنا ہے۔ تنازعہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ نہ کرنے پر انہیں عرب-امریکیوں اور مسلم رہنماؤں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکی-عرب انسدادِ امتیاز کمیٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد ایوب نے ایک بیان میں کہا امریکہ میں فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کی "شدت سے ضرورت" ہے۔ایوب نے کہا، "ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزہ اور فلسطین میں حالات بہتر نہیں ہو رہے ہیں اور یہ ایک خوش آئند بات ہے اور ہمیں اس پر عمل درآمد دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔"غزہ کے صحت کے حکام کہتے ہیں کہ 7 اکتوبر کو جب حماس نے جنوبی اسرائیل میں ہنگامہ آرائی کے دوران 1,200 افراد کو ہلاک اور 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، تب سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 28,500 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔