پاکستانی قیمتی پتھر تھائی لینڈ کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کئے جانے کا انکشاف

سینیٹر خالدہ اطیب کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پاکستانی قیمتی پتھر تھائی لینڈ کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوا۔پاکستان جیمز اینڈ جیولری ڈویلپمنٹ کمپنی کے حکام کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پاکستانی قیمتی پتھر تھائی لینڈ کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کئے جاتے ہیں۔وہاں ان پتھروں کی تراش خراش کرکے بارہ گرام پتھرپاکستانی قیمت سے 70 ہزار روپے سے زیادہ کا بیچا جاتا ہے۔پاکستان میں قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے جیمز اینڈ جیولری کی برآمدات میں مشکلات ہیں، بھارت کی جیمز اینڈ جیولری کی برآمدات 40 ارب ڈالر سالانہ کی ہیں.پاکستان کی جیمز اینڈ جیولری کی سالانہ برآمدات اوسطاً 60 لاکھ ڈالر کی ہیں، تھائی لینڈ کی 8 ارب ڈالر سے زیادہ کی جیمز اینڈ جیولری کی برآمدات ہیں، سری لنکا کی جیمز اینڈ جیولری کی برآمدات 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں۔

دوسری جانب سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ سٹیل ملز کی مساجد سے علماء کو فارغ کیا گیا ہے، انتخابات سے بھی مولویوں کو سائیڈ کیا گیا ہے اب یہاں سے بھی کیا ہے۔ اسٹیل ملز حکام نے جواب میں کہا کہ 33 لاکھ روپے تنخواہوں میں ادائیگی کی مد میں بقایا جات تھے۔ چار ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کردی گئی ہے. مساجد کے امام و علماء کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے کالونی والوں سے پیسے دیتے ہیں، فی گھر 200 روپے مقرر کر دیے گئے اور پانچ لاکھ روپے جمع ہوں گے۔چیئرپرسن کمیٹی نے استفسار کیا کہ گزشتہ جمعہ کو مسجد میں نماز نہیں ہوئی۔ حکام نے جواب دیا کہ رہائشی کالونی میں ہر مسجد میں جمعہ کی نماز ہوئی ہے، پلانٹ میں اگر جمعہ کی نماز نہیں ہوئی اس کا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کمیٹی ممبر اور سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں مساجد بند کی جارہی ہیں۔سیکرٹری صنعت و پیداوار راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ اسٹیل ملز نے 30 لاکھ روپے سے زیادہ مساجد کمیٹی کو دیے ہیں. 31 جنوری تک تمام تنخواہوں کی ادائیگی کردی گئی ہے۔

جس پر سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ کل پتہ چلا ہے کہ تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی، چیئرپرسن کمیٹی نے بھی کہا کہ معلوم ہوا ہے تنخواہیں ادا نہیں ہوئی ہیں۔ سٹیل ملز حکام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 9 تاریخ کو تمام تنخواہیں ادا کردی گئی ہیں۔مزید اس پر کمیٹی نے اسٹیل ملز حکام کی تنخواہوں کی ادائیگی کی تفصیلات طلب کرلیں۔سینیٹر فدا محمد نے کہا کہ پلانٹ کی چار مساجد بند کی گئی ہیں صرف ایک مسجد کھلی ہے۔ سیکرٹری صنعت و پیداوار نے جواب میں کہا کہ سٹیل ملز 2016 میں بند ہوئی تھی اب ملازمین کم ہیں، اسٹیل ملز سفید ہاتھی ہے حکومت نے ہی پیسے دیکر چلانا ہے۔اسٹیل ملز میں ملازمین کی بحالی پر سیکرٹری صنعت و پیداوار راشد محمود لنگڑیال کا کمیٹی کو دو ٹوک جواب کہ ا سٹیل ملز میں ملازمین کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے.ملکی معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک پلانٹ چل رہا ہے اور اس پر بھی گیس کا خرچہ ہے وہ بھی بند ہو جائے گا، رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔

ای پیپر دی نیشن