ملازمتوں اور کام کے گھنٹوں کے حوالے سے یورپ کے امیر ممالک پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں، کام کے گھنٹے بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یورپ میں افرادی قوت میں اضافہ ہو چکا ہے، تاہم اس کے باوجود ملازمین ملنا مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ زیادہ تر ملازمین اب کام کم کرنے لگے ہیں۔
جرمنی، نیدرلینڈز اور آسٹریا میں حکومتیں اور کاروباری ادارے اب اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اضافی اوقات کار کو کارکنوں کے لیے کس طرح زیادہ پرکشش بنایا جائے، اس حوالے سے بچوں کی نگہداشت میں توسیع سے لے کر دوستانہ ٹیکس پالیسیوں اور کام کے زیادہ لچک دار نظام الاوقات جیسے امور پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
دراصل ان ممالک میں اوسط اوقات کار میں مسلسل کمی آ رہی ہے کیوں کہ پارٹ ٹائم یعنی جز وقتی ملازمتیں بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف کُل وقتی اوقات میں کمی کرنے کے لیے یونینوں کی جانب سے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
یورپی ملازمین کا کہنا ہے کہ ’’مشہور کہاوت ہے کہ زندہ رہنے کے لیے کام کرو، کام کرنے کے لیے زندہ نہ رہو، صرف اتنا کام کرنا چاہیے جتنا آپ کے لیے ضروری ہوتا ہے اور آپ ان چیزوں کے لیے وقت دے سکتے ہیں جو واقعی اہم ہیں۔‘‘
یورپی یونین میں مجموعی طور پر تقریباً 75 فی صد روزگار ہے، جب کہ جرمنی، آسٹریا اور نیدرلینڈز میں روزگار ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے، تاہم آج ان ممالک میں 10 میں سے 3 سے زیادہ ملازمین پارٹ ٹائم یا جزوقتی کام کرتے ہیں۔ نیدرلینڈز میں تقریباً نصف افرادی قوت ہفتے میں 35 گھنٹے یا اس سے کم کام کرتی ہے۔ جرمنی میں 2005 اور 2022 کے درمیان تقریباً 70 لاکھ نئے کارکنوں کو افرادی قوت میں شامل کیے جانے کے باوجود ملک میں مجموعی کام کے اوقات میں بہت معمولی اضافہ ہو سکا ہے۔
پارٹ ٹائم کام جن شعبوں میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ان میں نرسنگ اور تعلیم خاص طور پر شامل ہیں، منیجرز کا کہنا ہے کہ کل وقتی ملازمت کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی کی وجہ سے انھیں کام کے اوقات کو منظم کرنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں عملے کی کمی کا اور بھی زیادہ امکان ہے، آجروں اور پالیسی سازوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے آجرین اور حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ کارکنوں کے مزید کام کے گھنٹے کیسے حاصل کیے جائیں۔ نیدرلینڈز نے 2025 سے بچوں کی دیکھ بھال پر سبسڈی بڑھانے سے اتفاق کیا تھا لیکن بجٹ میں کٹوتیوں کی وجہ سے اسے 2027 تک کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔