امتحانی مراکز میں سخت چیکنگ و نگرانی پر کوئٹہ کے طلبہ کی شہر جام کرنے کی دھمکی۔
بہت خوب‘ یہ ہیں تعلیم کے وہ ثمرات جو ہمارے بچے سکولوں میں‘ کالجوں میں سیکھ رہے ہیں۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام بدترین زوال کا شکار ہے‘ میٹرک‘ ایف اے کے طالب علم درست اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے‘ انگلش‘ ریاضی اور سائنسی علوم کی تو بات ہی نہ کریں۔ پھر بھی نقل کی بدولت امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی اچھے نمبر لے کر۔ یہ سب بوٹی مافیا کا کمال ہے جو امتحانی مراکز پر چھایا ہوا ہے۔ مراکز خریدے جاتے ہیں‘ بااثر بدمعاش اور غنڈہ عناصر کی پشت پناہی کی بدولت اب طلبہ میں یہ طاقت آگئی ہے کہ وہ حکومت کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر امتحانی مراکز میں یہ سختی جاری رہی اور انہیں حسب منشاپہلے کی طرح نقل شریف نہ کرنے دی گئی تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا۔ طلبہ طاقت پورے کوئٹہ شہر کو جام کر دیگی۔ حق ہے‘ سچ ہے بھائی۔ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اب تو طالب علم کے پاس کتاب اور قلم ہو نہ ہو‘ اسلحہ ضرور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبائلی مزاج کے طلبہ کہتے ہیں‘ تعلیم زیور ہے اور زیور مردوں پر حرام ہے۔ چنانچہ ہم تعلیم حاصل نہیں کرینگے۔ رہی بات امتحان دیئے بغیر پاس ہونے اور ڈگری حاصل کرنے کی تو وہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ پہلے تجاوزات مافیا‘ منافع خور مافیا‘ بھتہ خور ، چور اور ڈاکو مافیا والے ذرا ذرا سی بات پر سڑک بلاک کرتے تھے‘ اب سیاسی مذہبی اور علاقائی تنظیموں کے ساتھ یہ نیا عنصر بھی شہر جام کرنے کیلئے سامنے آگیا ہے۔ حکومت بلوچستان کو جو پہلے ہی بہت سے مسائل سے نبردآزما ہے‘ اسے اب ان سے بھی نمٹنا ہوگا۔ یاد رہے یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے‘ اس میں ذرا سی بھی غلطی کی گنجائش نہیں‘ اس لئے نوجوانوں کے کل کیلئے آج سختی کرنا پڑے تو کرنا ہوگی۔ چلیں ٹھیک ہے امتحانی ہال میں سختی نہ کریں‘ مگر شرط یہ ہے کہ کوئی طالب علم سوائے قلم اور گتے کے کاغذ کا ایک ٹکڑا تک نہ لے جائے باہر ایسی تلاشی ہو تاکہ اندر وہ اطمینان سے پرچہ دیں باہر بے شک کرفیو لگادیا جائے۔
٭…٭…٭
فافن کی حاضری رپورٹ‘ پارلیمنٹ کے پہلے سال 12 سیشن میں 36 ارکان ہمیشہ حاضر ، ‘ غیرحاضری میں خواتین سرفہرست۔
اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو اپنے ایوان سے کتنی محبت ہے۔ یہاں تک آنے کیلئے وہ کتنے پاپڑ بیلتے ہیں‘ پارٹی سے ٹکٹ لینے میں کروڑوں کا چندہ دیتے ہیں‘ الیکشن مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ مگر مجال ہے جو کوئی اپنے حلقے کے مستحقین پر ایک روپیہ بھی خرچ کرتا ہو۔ ہاں انتخابی مہم میں دونوں ہاتھوں سے مال چونکہ مفت ان کو ملا ہوتا ہے‘ یا باپ دادا کی طرف سے جمع پونجی ملتی ہے‘ اسے یہ خرچ کرکے پارلیمنٹ میں جب آتے ہیں تو پھر جو خرچہ ہے‘ اس سے ڈبل منافع کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔ بمعہ ترقیاتی فنڈز و سالانہ گرانٹ کے۔ یہ پارلیمنٹ ملک کا سب سے مقدس و محترم ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے جہاں سے ملک چلانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ قانون سازی ہوتی ہے‘ ملک و قوم کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں مگر دیکھ لیں اس پارلیمان کے ممبران کی نظر میں اس ایوان کی کیا حیثیت ہے۔ 342 ارکان میں سے صرف 36 ارکان ایسے ہیں جو ہر اجلاس میں شریک رہتے ہیں جبکہ غیرحاضری میں سرفہرست خواتین ہیں۔ جب یہاں آنا ہی نہیں‘ کچھ کرنا ہی نہیں تو کیوں ان منتخب ایوانوں میں پہنچنے کی خاطر اپنے دن رات برباد کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک برس میں پارلیمنٹ کے کل 12 اجلاس ہوئے‘ ان میں سے صرف نویں اجلاس میں 241 ارکان نے بھرپور شرکت کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ ہر اجلاس کروڑوں روپے میں پڑتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ شاید ہی کبھی کسی اجلاس میں 70 یا 80 سے زیادہ ارکان شریک ہوئے ہوں۔ یہ بھی بڑی تعداد شمار ہوتی ہے۔ جو اجلاس ہوتے ہیں‘ ان میں سوائے احتجاج‘ شورشرابے‘ نعرے بازی کاغذ پھاڑنے کے، کوئی ایسی قابل ذکر سرگرمی نہیں نظر آتی جس کی تعریف کی جائے۔ بس یہی کھیل تماشا ہوتا نظر آتا ہے۔ سوائے تنخواہوں اور مراعاتوں میں اضافے کے اتفاق رائے سے منظوری کے سوا کسی بھی اجلاس میں امن نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭
افغان کرکٹ ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کیلئے پاکستان پہنچ گئی۔
بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارے پڑوسی بھائی کو یہ خیال آہی گیا کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے‘ اس میں سیاست کو نہ گھسیڑا جائے۔ گرچہ افغان کھلاڑی راشد خان سے منسوب ایک بیان کہ ’’پاکستان میں سکیورٹی خطرات زیادہ ہیں‘ یہ میچ کسی نیوٹرل ملک میں ہونے چاہئیں‘‘ پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس بیان کی آڑ میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ یوں سمجھ لیں حمایت اور مخالفت کے شغل میلہ کا میچ ہو رہا ہے۔ اگر راشد خان نے ایسا کہا ہے تو بہتر تھا نہ کہتے۔ وہ پاکستان میں رہتے رہے ہیں‘ شاید پیدا بھی یہیں ہوئے تھے‘ یہاں ہی بچپن گزارا، جوانی دیکھی‘ کرکٹ سیکھی اور کھیلی۔ اگر کوئی سکیورٹی تھریٹ تب نہ تھا تواب کیسا۔ خطرہ تو انہیں طالبان حکومت سے ہو سکتا ہے کہ نجانے کب وہ چست ٹرائوزر پر فحاشی کا الزام لگا کر کھلاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگا دے اور یہ کھلاڑی بیروزگاری گار ہوں ورنہ کیا پابندیاں‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار کے حوالے سے صرف خواتین کیلئے ہیں۔ اب اگر مردوں کو بھی پابند شرعی لباس کرنے کا حکم آیا تو پھر راشد خان کابل قندھار‘ ہرات میں افغانی کشتی ہی لڑ سکیں گے جو شلوار قمیض پہن کر لڑی جاتی ہے۔ یہی حال فٹبال کے کھلاڑیوں کا ہوگا کہ نیکر غیرشرعی لباس ہے‘ چلیں چھوڑیں‘ یہ افغان جانیں اور انکی حکومت۔ اب افغان ٹیم نے گزشتہ روز لاہور میں پریکٹس بھی کی‘ کرکٹ شائقین خوش ہیں کہ افغان کرکٹ ٹیم کی آمد سے چیمپئنز ٹرافی میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوگا کیونکہ جوش جنون میں بدل جاتا ہے۔ اگر بھارت والے بھی عقل کو ہاتھ مارتے اور بونگیاں مارنے کے بجائے پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی کھیلنے آتے تو مزہ دوبالا ہو جاتا۔ پھر جوش جنون کے ساتھ سردھڑ کی بازی لگاتے کھلاڑی کھیل کو یادگار بنا دیتے۔
٭…٭…٭
حکومت کسی سے مخلص نہیں‘ فضل الرحمان کی اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت۔
لگ رہا ہے فضل الرحمان کی ایک بار پھر اپوزیشن سے دوستی بحال ہونے لگی ہے۔ چند روز قبل تو ’’کچی ٹٹ گئی جہناں دی یاری‘ او پتناں تے رون کھڑیاں‘‘ کی گونج دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ مگر اب لگتا ہے حکومت والوں کی طرف سے بے اعتنائی کی وجہ سے مولانا ایک بار پھر ’’ترے در تے آ کے سجناں وے اسی جھولی خالی لے چلے‘‘ چنانچہ اب وہ ایک بار پھر اپنے دیرینہ رفیقوں یعنی وفد کے ساتھ بقول غالب:
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
اپوزیشن والوں کے اجلاس میں جمعہ جنج نال بنے نظر آتے ہیں۔ دیکھنا ہے یہ محبت کب تک قائم رہتی ہے کیونکہ مولانا کو پٹڑی بدلتے دیر نہیں لگتی‘ جبھی تو اڈیالہ جیل کے قیدی نے اپنی پارٹی والوں کو انکی طرف زبان اور آنکھیں بند رکھنے کا کہا ہے تاکہ وہ جب چاہیں آئیں جب چاہیں جائیں‘ انہیں کچھ نہیں کہا جائے۔ یہ ہوتی ہے مقبولیت اور اثر ورسوخ جسے حاسدین مطلب پرستی کا نام دیتے ہیں۔ یہ تو مولانا فضل الرحمان کی سیاست کا وصف ہے کہ وہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کی گڈبک میں شامل رہتے ہیں اور جہاں جی چاہتا ہے خود کو کیش کراتے ہیں۔ انکے علاوہ شاید ہی کوئی اس میدان میں ان کا حریف ہو۔ وہ تن تنہا بیک وقت اپوزیشن اور حکومت دونوں کے حواس اور کاندھوں پر سوار رہتے ہیں اور کوئی بھی انہیں ناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتا بلکہ سب ہر وقت ان کو جی آیاں نوں کہتے نظر آتے ہیں۔ گویا وہ شہ بالا ہیں جسے دولہا کے ساتھ بٹھانا مجبوری ہوتی ہے۔ چاہے اس کا کام کچھ نہ ہو مگر سلامی تو ملتی ہے۔
٭…٭…٭