عدل اور احسان

عدل کرنا ایک بہت اچھا اور بڑا عمل ہے لیکن اسلام نے اس سے بھی بڑھ کر احسان کی ترغیب دی ہے۔ عدل کا مطلب برابری ہے کسی کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھنا جیسا اس نے رکھا تھا اور احسان کا مطلب ہے کہ دوسرے شخص کی نسبت اس سے بڑھ کر سلوک کرنا۔ جس معاشرے میں عدل قائم ہو جائے وہاں امن و امان کی صورتحال نظر آتی ہے اور احسان کرنے سے لوگوں کے دلوں میں انسان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :اور اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے انصاف اور احسان کا (ہر ایک کے ساتھ)۔(سورۃ النحل)۔
عدل یہ ہے کہ جب آپ کو کوئی شخص کچھ دے تو آپ اس کے بدلے میں اتنا ہی اسے دیں اور احسان یہ ہے کہ جب آپکو کوئی کچھ دے توآپ اس سے بڑھ کر اسے کچھ دیں۔
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جب کوئی تمہیں کسی لفظ سے سلام کہے تو تم اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب میں کہو یا وہی کہہ دو۔ جب ہمیں کوئی نقصان پہنچائے یا پھر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے اگر ہم اسے اس کے کیے کی سزا دینے کی بجائے معاف کر دیں تو یہ احسان ہے۔
 سورۃ الشورٰی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اور برائی کا بدلہ اسی کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ بیشک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔ 
مکہ مکرمہ کے لوگوں نے نبی کریم ﷺ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، آپ کو نعوذ بااللہ ساحر اور مجنون کہا۔ آپ ؐ کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ آپ کے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کر کے ان کا کلیجہ چبایا گیا۔ لیکن جب نبی کریم ﷺ فاتح مکہ کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔ کفار نے کہا کہ ہم آپ سے خیر کی امید کرتے ہیں کیونکہ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔
 نبی کریم ﷺ نے فرمایا جائو تم سب میری طرف سے آزاد ہو آج کسی سے بھی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی دی ہوئی تکالیف کے بدلے میں انہیں معاف کر کے ان پراحسان کیا۔نبی کریم ﷺ کا حسن اخلاق دیکھ کر مکہ کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ 
 نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو چاہے وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ (کنز العمال )۔

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...