آج کا تازہ ماحول ہمارے معاشرے اور ملت کی وہ پریشان کن تصویر پیش کر رہا ہے کہ ہر آنیوالا دن قیامت خیز نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی اندھیری غار میں دھکیل دئیے جائینگے اور اس اندھیرے میں ہمارا سب کچھ لٹ جائیگا۔ مارے خوف کے کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سب تدبیریں الٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ باہر دیکھتے ہیں تو اندر سے غفلت کا پردہ دبیز نظر آتا ہے اور اندر پر توجہ کریں تو باہر ڈاکو نظر آتے ہیں۔ اندر چور باہر ڈاکو کسی کروٹ چین میسر نہیں ہے۔ ہر جزو بدن ایک دوسرے کو کاٹنے کی انجانی سی تدبیر کر رہا ہے۔ ملت کا بدن جو پہلے ہی ملت کبریٰ یعنی امہ کے دریا سے بے ربط ہے اور اپنی تنہائی کی آگ میں جل رہا ہے۔ بھائی کا کندھا سہارے کیلئے نہیں ہے بیوپار کیلئے ہے۔ کسی کو کسی کا اعتبار نہیں ہے اسی لئے ہماری مقتدرہ کا ائرپورٹ تک پروقار نہیں۔ افراتفری تو ہوتی ہی غیر منظم ہے لیکن ہماری قسمت ہماری افراتفری باہر سے منظم ہے جو ہماری صفوں کو ہر طرف اور ہر طرح سے اندرونی طور پر غیر منظم کرنے کیلئے ہے اور ہم ہیں کہ علاج بھی غیر منظم انداز سے کر رہے ہیں۔ ہر اندازہ بے اعتمادی کی فضا میں جنم لیتا ہے اور شکوک کے ماحول میں پروان چڑھ کر بے یقینی کے ثمرات لاتا ہے اور پھر ہم قیاس در قیاس ایسے بودے مفروضے اختراع کرتے ہیں کہ حقیقت مارے شرم کے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ ملت کا شیرازہ بکھر رہا ہے اس سہمے ہوئے ماحول میں ایمان کا ٹمٹماتا چراغ جس میں نسبت رسولﷺ کی روشنی ہے سہارا دے رہا ہے اسی نسبت کی قوت بنائے ایمان ہے اور اسی نسبت سے ربط منزل نجات ہے۔
یہ وہی نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کو زندہ کرتا ہے اور منصب امامت پر فائز کرتا ہے۔ مسلمان کی ملت کیا ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی میں باطن کی وہ کون سی قوت ہے جو اسے ٹوٹنے نہیں دیتی بلکہ مضبوط سے مضبوط تر کرتی ہے۔ حضور عالمین پناہﷺ نے فرمایا کہ تم مومنوں کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے کو بنظر رحمت دیکھتے ہیں اور باہم محبت قلبی کا سراپا بن کر رہتے ہیں اور باہمی جذبات محبت کا مظاہرہ ایسے کرتے ہیں جیسے انسانی بدن کے اعضا ہوتے ہیں۔ اگر ایک عضو بدن کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن مبتلائے درد ہوتا ہے اور رات بھر جاگتا ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ مومن کی ملت کے جذب و ربط میں جتنے عناصر درکار ہیں اور جس ہیئت وجودی کا تقاضا ہے وہ سب سی فرمان ہدایت نشان میں موجود ہیں۔ بس اب تو اس آئینہ فرمان میں ہم اپنے فردی و جماعتی وجود کا جائزہ لیں کہ ہم اپنے قول و عمل، قلم و قرطاس کے ذریعے سے دفاع ملت و بقائے ملت کیلئے کر رہے ہیں۔
مومن کا جہاد کبھی نہیں رکتا۔ معاشرتی بقا کیلئے جو کوششیں باہمی اتحاد و ربط کے لحاظ سے کی جاتی ہیں۔ وہ جہاد اکبر کا درجہ رکھتی ہیں جی ہاں اپنی ذات کے خول توڑ کر اور اپنی نجی جماعتی تنگنائوں سے نکل کر شاہراہ اتحاد پر جمع ہونا اور وحدت گم ہونا بقائے اجتماعی کی شرط اولین ہے اور تعمیر ملت کا پہلا قدم ہے۔ داخلی و خارجی مزاحمت جو بڑھتے بڑھتے وحشت اور دہشت میں بدلتی ہے اس کیلئے دفاعی اور سکندری محبت اور رحمت اور مودت سے ہی تعمیر ہو سکتی ہے‘ مجھے اپنے پاکستان کی تاریخ یاد ہے کہ جب سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا تو ہماری مغربی سرحدیں بھی خطرات کے منہ کھولے اژدھے کے سامنے تھیں اور مایوسی کی سیاہی نے ہمارے ملی جذبات کو بحر ظلمات کے حوالے کر دیا تھا۔
برصغیر کی تاریخ کے دو بڑے مظاہرے ہمارے سامنے ہیں کہ جب ہم بے بس ہو کر تخت دہلی سے دستبردار ہوئے اور 90 سالہ غلامی کے بعد ہمارے ملی حواس نے ایک انقلابی راستہ اختیار کیا قائداعظم کی بے لوث قیادت میں ملت اسلامیہ کے ہر طبقے نے بقدر توفیق متحد ہوکر اپنی منزل پا لی اگرچہ اس وقت بھی انفرادی اور اجتماعی بدنیتوں کی دنیا زندہ تھی لیکن متحد عوامی قوت نے بڑے لوگوں کو متحد ہونے پر مجبور کر دیا اور پاکستان قیافہ شناسوں کی نظربد سے بچ کر ایک ریاستی وجود اختیار کر گیا۔
تاریخ کا دوسرا منظر ڈھاکہ کے بعد ادھورے پاکستان کی بقاء کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے شملہ جانے سے پہلے مایوسی میں گھری ہوئی قوم اور اسکے لیڈروں کو اعتماد میں لیکر ایک متحد راستہ منتخب کیا اور وہ یہ تھا کہ ہماری مغربی سرحدات سے بھارتی فوجیں واپس چلی جائیں اور ہمارے نوے ہزار قیدی رہا کر دئیے جائیں اتحاد و اتفاق کی برکات کے اثرات بین الاقوامی رویوں پر پوری طرح نظرآنے لگے کیونکہ پوری قوم اپنے مطالبہ ملی کیساتھ اپنے لیڈر کی پشت پر تھی دائیں بائیں بازو کے تمام سیاست دان خارجی محاذ کی شکست اور مزید بربادی سے پریشان حالی کو خو ب سمجھتے تھے اس لئے وہ مشروط طور پر ایک قیادت پر متفق ہوگئے تھے اسی داخلی قومی یکجہتی نے ہندو قیادت کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر دیا تھا بعد کے اندرونی تجزئیے آپ جو چاہے کریں لیکن اس عارضی اتحاد کی برکات ہم سب نے ملاحظہ کرلیں۔
آج پھر ہمارے سیاسی اور مذہبی رویے سخت انتشار کا ہی شکار نہیں ہیں بلکہ تضادات اور تصادم کی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں اسکی ایک اہم وجہ وسیع البنیاد اور وسیع الفکر قیادت کا فقدان ہے اور گذشتہ دو عشروں سے سیاست زرگروں کا بازیچہ اطفال بن کر رہ گئی ہے۔ ہر شے برائے فروخت ہے بندہ خرید لیں یا بندگی خرید لیں۔ یہ سب ممکن ہوجائے گا۔
میرے نزدیک کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنا اگرچہ گناہ ہے لیکن امیدوار کوشش کو ترک کرنا اور مرنے سے پہلے ہی خودکشی کا راستہ سوچنا انتہائی بے عقلی ہے۔ کل کی فکر کرنا چاہیے کہ ہمارا دشمن تہیہ کئے ہوئے ہے کہ اس نے ہمیں زندہ درگور کر دینا ہے اور ہمارا نام لوح جہاں پر حرف مکرر کی طرح سمجھتا ہے۔ ہمارا معاشی گھیراؤ اس کا اہم ہدف ہے معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے ہماری زراعت پر ضرب کاری لگانے کا آغاز کردیا ہے اور بہت ہی سائنٹیفک انداز میں ہمارے پر پانی کی بندش کا آغاز کردیا ہے ہمارے دریاؤں کا پانی روک کر ہمارے سونا اگلتے کھیت صحرا میں بدلنے کا عزم مصمم ہے اور اسکے بعد بھارتی سالار جنرل دیپک کپور کا یہ بیان کہ ہم چند گھنٹوں میں پاکستان کا نقشہ بدلنے کا پروگرام بنا چکے ہیں انتہائی لرزہ خیز دھمکی ہے کیا ہم اسے محض ایک خواب اور ڈرامائی مکالمہ سمجھ کر ذہن کو خاموش کرلیں کہ ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیا کرتے اور آنیوالا دن خوبصورت ہے۔
قارئین! ایسی سوچیں مال مست لوگوں کی تو ہو سکتی ہیں جن کو دنیا کے کسی بھی خطے میں ہروقت زندگی کی آسائشیں حاصل ہیں اور انکے بچوں کو یورپی ممالک کی شہریت بھی حاصل ہے ہم نے ہمارے بچوں نے اسی ملک میں رہنا ہے انکی شناخت پاکستان ہے ان کا رزق اسی پاک سرزمین میں دفن ہے ہمارے اجداد کی قبریں بھی اسی دھرتی کا حصہ ہیں ہمارا ماضی حال اور مستقبل پاکستان ہے اس لئے ہم کسی بھی لمحے دشمن کی چال یا دھمکی سے غافل نہیں رہ سکتے۔
فوری کرنے کا کام تو یہ ہے کہ ہم غیر سرکاری اور غیر جماعتی (مراد کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت نہ ہو) راستہ تلاش کریں اور افراد یعنی منتخب افراد کو ایک جگہ جمع کریں اور خوش نیتی کیساتھ دلسوزی کا پیغام ایک دوسرے کوسنائیں اور اسے عملی قوت میں بدلنے کیلئے منطقی نتیجے تک پہنچائیں۔ میرے نزدیک یہ بھاری پتھر جناب مجید نظامی ہی اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس خاندان کے بزرگوں بچوں کے خون میں پاکستانیت پوری قوت مدافعت سمیت موجود ہے جناب مجید نظامی مقتدر اور غیر مقتدر طبقوں میں ہر لحاظ سے قابل قبول ہیں وہ پرانے بادہ کشوں میں مقبول ہیں اور نوجوان ہراول دستہ ہائے قوم ان کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں جناب نواز شریف ان سے رہنمائی لیا کرتے تھے اور جناب زرداری ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں مذہبی وغیر مذہبی جماعتوں کے قائدین ان پر اعتبار کرتے ہیں اہل دانش اور تجزیہ نگار ان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
گویا وہ ایک ایسا نقطہ مرکزیہ ہیں جس سے خوبصورت دائرے وجود میں آتے ہیں وہ کراچی والوں کوبلالیں گے اور سرحد والے انکی آواز دلنواز پر لبیک کہیں گے اہل بلوچستان ان کو اپنے زخموں کا رفوگر سمجھتے ہیں پنجاب والے تو انکی بات اچھی طرح سے سنتے ہیں مرکز تو وہ خود ہی ایک مرکز ہیں ان کے کہنے پر حمید گل بھی آئینگے، پیرپگاڑہ بھی تائید کرینگے اور مذہبی جماعتوں کے پرانے گوشہ نشین حضرات بھی اپنے درد کی کہانی سے چراغوں کا اہتمام کرینگے ہاں وہ لوگ ابھی باقی ہیں جنہوں نے پاکستان بنانے کی سعادت حاصل تو نہیں کی البتہ ان کی رگوں میں معمار ان پاکستان کا صالح خون صالح نیتوں کے ساتھ دوڑ رہا ہے اور وہ اب بھی لوگوں کے دلوں سے محبت کے حوالے سے آباد ہیں یعنی وہ سجادہ نشینیاں جن کے بزرگوں نے سرحد وسہلٹ کے ریفرنڈم میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا وہ 1946ء کی بنارس کانفرنس میں جب مشائخ نے عہد کیا تھا کہ اگر قائداعظم محمد علی جناح مطالبہ پاکستان سے دستبردار بھی ہوگئے تو ہم مشائخ پاکستان بنا کر دم لیں گے اور چلنے والا قافلہ رکے گا نہیں۔ بہت سے مشائخ نے اخبارات میں یہ اعلان کردیا تھا کہ مطالبہ پاکستان کیلئے مسلم لیگ کو ووٹ نہ دینے والا ہمارا مرید نہیں رہے گا۔
یہ لوگ پاکستان سے محبت نہیں عقیدت رکھتے ہیں ان کیلئے یہ حرمین کے بعد مقدس مقام ہے ان کے اکابر نے ان کو بتایا ہے کہ پاکستان کی محبت ایمان ہے اور پاکستان کی بقاء اسلام ہے اور یقین بالیقین چشم اقوام یہ نظارہ دیکھے گی۔ وہیں سے دیکھ لینا آفتاب شوق ا بھریں گے جہاں جگنو چمکنے کی اجازت ہو نہیں ہوسکتی۔